کے ہمراہیوں نے یہ سن کر کہ عبدالرحمن کی فوج آ رہی ہے، عبداللہ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ عبداللہ اسدی نے امیر عبدالرحمن سے معافی کی درخواست کی، امیر نے اس کو معافی دے دی۔ ۱۵۰ھ میں غیاث بن میر اسدی نے علم بغاوت بلند کیا، ولایت باجہ کے عامل نے فوجیں فراہم کر کے اس کا مقابلہ کیا، معرکۂ کارزار میں غیاث مارا گیا، اس کی فوج شکست کھا کر منتشر ہو گئی عامل باجہ نے غیاث کا سر کاٹ کر بشارت نامہ کے ساتھ امیر عبدالرحمن کی خدمت میں بھیج دیا اسی سال یعنی ۱۵۰ھ میں امیر عبدالرحمن نے شہر قرطبہ کی شہر پناہ کا سنگ بنیاد رکھا۔
۱۵۱ھ میں ایک شخص شقنہ بن عبدالواحد نے جو بربر کے قبیلہ مکناسہ سے تعلق رکھتا تھا اور تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے معلمی کا پیشہ کرتا تھا یہ دعویٰ کیا کہ میں سیّدنا امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی اولاد سے ہوں اور میرا نام عبداللہ بن محمد ہے، اس شخص کو عباسیوں کی سازشی کار روائیوں کا علم تھا، نیز علویوں کے دعاۃ مکناسہ اور علاقہ بربر میں آتے رہتے تھے، جن کا اس کو علم تھا، لہٰذا اس نے اندلس کی حکومت کو درہم برہم کرنے کی جرائت و جسارت کی اس کی یہ اولوا لعزمی کچھ زیادہ عجیب بھی نہ تھی، کیونکہ بہت جلد بربریوں کی ضعیف الاعتقاد قوم اس کے گرد جمع ہو گئی، بربریوں کے علاوہ بعض لوگ اور بھی اس کے معتقد ہو گئے، ابن عبدالواحد نے اپنی کرامت اور خرق عادت باتوں کا بھی ان لوگوں کو یقین دلایا ایک مجمع کثیر جب اس کے معتقدین کا فراہم ہو گیا تو اس نے علم بغاوت بلند کیا اور اندلس کے مشرقی صوبہ بلنسیہ کے مقام شیطران پر قابض و متصرف ہو گیا، امیر عبدالرحمن یہ خبر سن کر اس کی سر کوبی کے لیے قرطبہ سے روانہ ہوا۔
ابن عبدالواحد امیر عبدالرحمن کی آمد کا حال سن کر اپنی جماعت کے ساتھ پہاڑوں میں جا چھپا اور مقابلہ نہیں کیا، امیر عبدالرحمن قرطبہ کی جانب واپس لوٹ آیا، طلیطلہ کی حکومت پر حبیب بن عبدالملک کو مامور کر کے ابن عبدالواحد کی سر کوبی کی ہدایت کی۔
حبیب بن عبدالملک نے اپنی طرف سے سلیمان بن عثمان بن مروان بن عثمان بن ابان بن عثمان بن عفان کو ابن عبدالواحد کی گرفتاری و سزا دہی پر مامور کیا، سلیمان فوج لے کر ابن عبدالواحد کے تعاقب میں روانہ ہوا ابن عبدالواحد نے مقابلہ کیا اور سلیمان کو گرفتار کر کے قتل کر ڈالا۔ اور اطراف قوریہ پر قابض و متصرف ہو گیا۔
یہ حالات سن کر ۱۵۲ھ میں امیر عبدالرحمن نے قرطبہ سے پھر کوچ کیا، ابن عبدالواحد امیر کی خبر سن کر فوراً پہاڑوں میں بھاگ گیا اور امیر عبدالرحمن پریشان ہو کر پھر واپس چلا آیا۔
۱۵۳ھ میں امیر عبدالرحمن نے اپنے خادم بدر کو ایک فوج دے کر روانہ کیا، بدر جب قلعہ شیطران
|