Maktaba Wahhabi

380 - 868
عیسائی مفرورین سے چھینی ہے تو اس کے چاروں پائے سالم تھے، آپ اس چوتھے پائے کو تلاش کریں ، مگر یہ طارق کی ایسی سازش تھی کہ ہزارہا آدمی اس سے واقف تھے اور موسیٰ تین سال تک بے خبر رہ کر یہی سمجھتا رہا کہ چوکی اسی حالت میں عیسائیوں سے چھینی گئی تھی، موسیٰ جیسا اولوالعزم شخص جو تمام یورپ کو فتح کرتا ہوا قسطنطنیہ پہنچنے کا عزم رکھتا تھا تعجب ہے کہ ایسی دنائت اور پست ہمتی پر کیسے آمادہ ہو سکتا تھا کہ دوسرے کی کارگزاری کو دربار خلافت میں جھوٹ بول کر اپنی طرف منسوب کرے، پھر لطف یہ کہ عیسائی مفرورین سے اس چوکی یا میز کا چھین لینا کوئی بہادری کی بات نہ تھی، خواہ کوئی شخص اس میز کو حاصل کرتا وہ بہرحال خلیفہ کی خدمت میں پیش ہونی چایئے تھی، پھر خلیفۂ دمشق کے دربار میں طارق کا اس طرح حاضر ہونا کہ اس کی بغل میں میز کا پایہ دبا ہوا ہے اور بھی حیرت انگیز ہے، طارق و موسیٰ کی ان مضحکہ خیز حرکات پر خلیفہ سلیمان کا اس قسم کی سزائیں تجویز کرنا بھی کسی طرح سمجھ میں نہیں آتا۔ اندلس اور ممالک مغربیہ کی تاریخ لکھنے والوں میں ہم کو سب سے زیادہ اعتماد ابن خلدون پر کرنا چاہیے، مگر وہ اس کہانی کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے۔ ابن خلدون کا بیان ہے کہ جب موسیٰ بن نصیر خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی خدمت میں حاضر ہوا تو خلیفہ نے موسیٰ کے اس ارادے پر اظہار ناراضی کیا کہ وہ یورپ کے ملکوں کو فتح کرتا ہوا قسطنطنیہ پہنچنا چاہتا تھا، اس طرح مسلمانوں کو وہ خطرہ اور ہلاکت میں ڈالنے کی جرائت کرتا، نیز یہ کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک نے موسیٰ کو اندلس سے یہی خبر سن کر طلب کیا تھا کہ وہ بلا اجازت یورپ کے ملکوں پر حملہ آور ہونے کا قصد کر چکا ہے، اسی لیے خلیفہ سلیمان نے موسیٰ بن نصیر کو زجروتوبیخ کیا کہ تو نے خودرائی و خود سری کی راہ سے مسلمانوں کی فوج کو کیوں خطرے میں مبتلا کرنا چاہا تھا، ابن خلدون کا یہ بیان بالکل قرین قیاس ہے، اس میں اس میز والی کہانی کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ موسیٰ بن نصیر اندلس کی حکومت اپنے بیٹے عبدالعزیز کو اور افریقہ و مراکش کی حکومت بھی اپنے بیٹوں عبداللہ و مروان کو سپرد کر آیا تھا، یعنی ممالک مغربیہ سب موسیٰ کی اولاد کے تصرف و قبضے میں تھے، اس لیے موسیٰ بن نصیر سے سختی کے ساتھ خلیفہ کا محاسبہ کرنا خطرہ سے خالی نہ تھا اور اسی لیے ممالک مغربیہ میں بھی کسی قسم کی برہمی پیدا نہیں ہوئی، یہ بات بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے کہ خلیفہ سلیمان نے ایک طرف موسیٰ کو ایسی سخت تنبیہ کی دوسری طرف موسیٰ کے بیٹوں کی معزولی کو ضروری نہ سمجھا، ہاں چند روز کے بعد خلیفہ سلیمان نے محمد بن یزید کو تمام ممالک مغربیہ کا وائسرائے مقرر کر کے قیروان بھیج دیا تھا کہ وہ ممالک مغربیہ کی نگرانی کرے، مگر اندلس کی حکومت بدستور عبدالعزیز بن موسیٰ کے قبضہ میں رکھی۔
Flag Counter