Maktaba Wahhabi

378 - 868
نشانۂ اعتراض بنایا ہے کہ اس نے ان ملک گیر و فتح مند سپہ سالاروں کی قدردانی نہیں کی، لیکن اگر غور و تامل کی نگاہ سے دیکھا جائے تو اس معاملہ میں سلیمان بن عبدالملک اس قدر خطا وار ہرگز نہیں ہے جس قدر ظاہر کیا گیا ہے، جس طرح ملک گیری ایک قابل قدر اور موجب عزت چیز ہے اس سے بڑھ کر ملک داری کا مرتبہ ہے، ضرورت ملک داری کا یہی تقاضا تھا جو سلیمان بن عبدالملک سے ظہور میں آیا، دنیا میں عام طور پر بہادر سپہ سالار اور ملک گیر فتح مندمالی معاملات میں بہت کمزور اور بے پروا ثابت ہوئے ہیں ، اسی بے پروائی کا نتیجہ تھا کہ سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سپہ سالاری سے معزول کر دیا تھا، فاروق اعظم کا یہ فعل ہرگز ہرگز محل اعتراض نہیں بن سکتا بلکہ عین صواب اور راستی پر مبنی تھا، بالکل یہی صورت موسیٰ بن نصیر کے معاملہ کی ہے، موسیٰ بن نصیر سولہ سترہ سال سے افریقہ کی گورنری پر مامور تھا موسیٰ بن نصیر کے ذمہ جو ملک افریقہ کے خراج کی بقایا تھی اور وہ بیت المال کا جس قدر مقروض تھا، اگر اس کو محض اس لیے چھوڑ دیا جاتا کہ موسیٰ کے زیر اہتمام ملک اندلس فتح ہوا ہے تو یہ بات دوسرے گورنروں کے لیے بدنما مثال ہوتی اور موسیٰ بن نصیر کی جرائت ایک غلطی یا غفلت یا خیانت میں اور بھی زیادہ ترقی کرجاتی۔ پھر اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ موسیٰ بن نصیر اور طارق کے معاملے میں سلیمان بن عبدالملک کے وزیروں ، مشیروں اور درباریوں میں سے کسی نے سلیمان بن عبدالملک کے متعلق سلیمان کی وفات کے بعد کوئی نکتہ چینی نہیں کی، مسلمان مؤرخین نے اس معاملہ میں کسی حیرت اور افسوس کا اظہار نہیں کیا جو دلیل اس بات کی ہے کہ موسیٰ بن نصیر کے ساتھ کوئی غیر معمولی برتاؤ نہیں ہوا، جو کچھ ہوا وہ عدل و انصاف کے خلاف نہ تھا، خلفائے بنو امیہ کے مصائب بیان کرنے والے اور ان کی ہر ایک بات کو نارواثابت کرنے میں مستعدی دکھانے والے سب سے زیادہ بنو عباس تھے، لیکن بنوعباس نے بھی اس خاص معاملے میں سلیمان کو بدنام نہیں کیا اور سلیمان کی اس ناقدر شناسی کا تذکرہ زبان پر نہیں لائے۔ ہمارے زمانے میں جب یورپی مورخین کی تصانیف بھی مسلمانوں کے مطالعہ میں آئیں اور بھی زیادہ غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے، یورپی مؤرخین فتح اندلس کے حالات لکھتے ہوئے ایک تو اس بات کو ثابت کرنے کی بڑی کوشش کرتے ہیں کہ لرزیق کی سلطنت غیرمعمولی طور پر کمزور ہو گئی تھی، پھر بلادلیل یہ کہتے ہیں کہ لرزیق کی رعایا اس سے باغی ہو کر مسلمانوں سے مل گئی تھی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت کو دیکھ کر اندلس کی رعایا ضرور مسلم فاتحین کو قدرومحبت کی نگاہوں سے دیکھنے لگی تھی، لیکن رعایائے اندلس نے لڑائی اور مسلمانوں کی چڑھائی میں بجز اس کے کہ کونٹ جولین نے ذاتی طور پر انتقام لینے کے
Flag Counter