کی وفات کے بعد رجب ۶۲۳ھ میں تخت نشین ہوا، یہ خلیفہ اخلاق فاضلہ میں اپنے باپ سے بہت مشابہ تھا، اس نے عدل و انصاف کے قائم رکھنے میں اپنے باپ کی طرح کوشش کی، دین و مذہب کی پابندی کا اس کو خاص طور پر شوق تھا، بغداد میں اس نے مدرسہ مستنصریہ بنایا اور بڑے بڑے علماء مدرسی پر مقرر کیے، اس مدرسہ کی تعمیر کا کام ۶۲۵ھ میں شروع ہو کر ۶۳۱ھ میں ختم ہوا، اس مدرسہ میں ایک کتب خانہ قائم کیا جس میں ایک سو ساٹھ اونٹ پر لاد کر نہایت نفیس و نایاب کتابیں داخل کی گئیں ، حدیث، نحو، طب، اور فرائض کے استاد الگ الگ مقرر کیے گئے، ان سب کے کھانے پینے، مٹھائی، میوے اور دوسری چیزوں کا انتظام مدرسہ کی طرف سے ہوتا تھا، بہت سے گاؤں اس مدرسہ کے لیے وقف تھے۔
۶۲۸ھ میں ملک اشرف نے دارالحدیث اشرفیہ کی بنیاد رکھی، ۶۳۰ھ میں اس کی تکمیل ہوئی، ۶۲۹ھ میں محمد بن یوسف بن قلج ارسلان بن سلیمان بن قتلمش بن اسرائیل بن سلجوق جو ایشیائے کوچک کے اکثر حصہ پر قابض و متصرف تھا فوت ہوا اور اس کا بیٹا غیاث الدین کیخسرو تخت نشین ہوا، ۶۴۱ھ میں تاتاریوں نے غیاث الدین کیخسرو پر چڑھائی کر کے شکست دی اور غیاث الدین کیخسرو نے تاتاریوں کی اطاعت قبول کر کے باج گذاری منظور کی، اس طرح سلاجقہ روم کی دو صد سالہ حکومت کا خاتمہ ایشیائے کوچک میں ہو گیا، غیاث الدین کیخسرو تاتاریوں کی باج گزاری میں ۶۵۶ھ تک حکومت کر کے فوت ہوا، اسی زمانہ میں خاندان عثمانیہ کے مورث اعلیٰ نے سلطنت عثمانیہ کے ایوان رفیع کی بنیادی اینٹ رکھی تھی جس کا حال بعد میں مفصل بیان کیا جائے گا۔
خلیفہ مستنصر نے ملک کے انتظام اور عدل و انصاف کے قیام میں بہت کوشش کی مگر چونکہ ترکوں اور تاتاریوں نے یکے بعد دیگرے ولایتوں اور صوبوں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور جلد جلد ایک کے بعد دوسرا ملک ان کے قبضے میں آتا گیا، لہٰذا خلیفہ کی آمدنی کم ہو گئی، صلاح الدین یوسف کی سلطنت جو شام و مصر پر مشتمل تھی، صلاح الدین کے وارثوں کی نااتفاقیوں سے برباد ہو رہی۔ تاتاریوں کے سیلاب نے ماوراء النہر سے بحر روم اور بحر اسود تک کے تمام ملکوں کو تاخت و تاراج کر ڈالا تھا، تاہم ملک عراق پر خلیفہ کا قبضہ تھا اور تاتاریوں (مغلوں ) کے دلوں پر خلیفہ بغداد کا اس قدر رعب قائم تھا کہ وہ خلیفہ کے مقبوضہ ملک کی طرف نگاہ نہیں کر سکتے تھے، اور جس طرح خراسان، آذربائیجان، موصل، شام وغیرہ کے سلاطین خلیفہ کی ناراضی سے ڈرتے تھے، اسی طرح مغل بھی خلیفہ بغداد کی سیادت کو تسلیم کرتے اور کسی قسم کی گستاخی کا کوئی ارادہ نہ رکھتے تھے، یہ تاتاری (مغل) چونکہ آفتاب پرست تھے اور سلجوقیوں کی طرح مسلمان ہو کر نہیں آئے تھے لہٰذا ان کو اس کی پرواہ ہی نہ تھی کہ کس کے نام کا خطبہ مسجدوں میں پڑھا جاتا ہے لہٰذا ان کے
|