آثار نمایاں ہوئے اور ۵۵۸ھ میں خلیفہ نے تمام بنی اسد کے خلاف فوجیں روانہ کر کے ان کو عراق سے نکال دیا، ۵۵۹ھ میں واسط کے اندر بغاوت ہوئی یہ بغاوت بھی فوجی قوت کی نمائش سے فرو کر دی گئی، ۵۶۰ھ میں خلیفہ کے وزیر عون الدین نے وفات پائی۔
۵۶۳ھ میں مصر کے آخری عبیدی حاکم عاضد لدین اللہ کے وزیر شادر پر ابن سوار نامی ایک شخص نے غالب ہو کر اس کو مصر سے نکال دیا، شادر مصر سے الملک العادل نور الدین زنگی کے پاس آیا، نورالدین زنگی سلاطین سلجوقیہ کے سرداروں میں سے ایک سردار تھا، اس کے باپ عمادالدین زنگی کا اوپر ذکر ہو چکا ہے، نورالدین محمود زنگی نے حلب و شام وغیرہ ممالک پر قبضہ کر رکھا تھا اور خلیفہ بغداد کا فرماں بردار تھا، نورالدین محمود کے سرداروں میں نجم الدین ایوب (جس کا ذکر اوپر بھی آ چکا ہے) اور اس کا بیٹا صلاح الدین یوسف بن نجم الدین ایوب اور نجم الدین ایوب کا بھائی اسد الدین شیر کوہ معزز اور اعلیٰ عہدوں پر مامور تھے، الملک العادل نورالدین محمود نے امیر اسدالدین شیر کوہ کو دو ہزار سواروں کے ساتھ مصر کی طرف روانہ کیا، شیر کوہ نے ابن سوار کا کام تمام کیا، مگر شادر نے ان وعدوں کو جو دربار نورالدین میں کر کے آیا تھا پورا نہ کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ فرانسیسی سواحل شام و مصر پر حملے کیا کرتے تھے اور ساحلی مقامات پر قابض ہو گئے تھے، شیر کوہ سے فرمائش کی گئی کہ ان عیسائیوں کو بھی ملک سے خارج کرو، شیر کوہ اور اس کے بھتیجے صلاح الدین نے فرنگیوں کو کئی مہینے کی لڑائیوں کے بعد مصر سے نکال دیا اور خود شام کی طرف چلا آیا، ۵۶۴ھ میں فرانسیسیوں نے پھر مصر پر حملہ کیا، عاضدلدین اللہ نے پھر الملک العادل سلطان نورالدین محمود زنگی کی خدمت میں امداد و اعانت کی درخواست کی، نورالدین نے پھر شیر کوہ کو مع صلاح الدین مصر کی جانب روانہ کیا، فرانسیسی شیر کوہ کے آنے کی خبر سنتے ہی بھاگ گئے اور عاضدلدین اللہ نے شیر کوہ کو اپنا وزیر بنا کر اپنے پاس رکھ لیا، شادر نے علم بغاوت بلند کیا، شیر کوہ نے فوراً اس کا کام تمام کر دیا اور اطمینان سے خدمات وزارت انجام دینے لگا۔
سال بھر کے بعد ۵۶۵ھ میں شیر کوہ کا مصر میں انتقال ہو گیا تو حاکم مصر عاضدلدین اللہ عبیدی نے شیر کوہ کے بھتیجے سلطان صلاح الدین یوسف کو وزارت کا عہدہ دیا، شیر کوہ اور صلاح الدین دونوں اپنے پرانے آقا سلطان نورالدین محمود کے بھی وفا دار تھے۔ اس طرح شام اور مصر دونوں ملکوں کی اسلامی طاقت متحدہ طور پر عیسائیوں کے حملوں کی مدافعت پر متوجہ رہی، ادھر خلیفہ مستنجد باللہ کو بھی عراق کی تمام بغاوتوں کے فرو کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی اور خلیفہ کا اقتدار و رعب پورے طور پر قائم ہو گیا۔ الملک العادل نور الدین زنگی خلیفہ کا وفادار اور اس کے ہر ایک حکم کی تعمیل کو تیار تھا، لہٰذا یہ زمانہ امن و امان اور عراق و شام و مصر کے
|