اور روپیہ خرچ کرتا تھا۔ باقی تمام روپیہ اور سامان اپنے وطن اشروسنہ (علاقہ ترکستان) کو روانہ کر دیتا تھا۔ یہ سامان جو آذربائیجان سے بھیجا جاتا تھا۔ خراسان میں ہو کر گزرتا تھا۔ عبداللہ بن طاہر کو جب یہ معلوم ہوا کہ افشین برابر اپنے وطن کو سامان رسد، سامان حرب اور روپیہ بجھوا رہا ہے تو اس کو شبہ پیدا ہوا۔ اس نے ان سامان لے جانے والوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا اور تمام سامان و روپیہ چھین کر اپنے قبضے میں رکھا اور افشین کو لکھ بھیجا کہ آپ کے لشکر سے کچھ لوگ اس قدر سامان لیے ہوئے جا رہے تھے۔ میں نے ان کو گرفتار کر کے قید کر دیا ہے اور سامان اپنی فوج تقسیم کر دیا ہے کیونکہ میں ترکستان پر چڑھائی کی تیاری کر رہا ہوں ۔ اگرچہ ان لوگوں نے یہ کہا کہ ہم چور نہیں ہیں اور اپنے آپ کو آپ کا فرستادہ بتایا۔ لیکن ان کا یہ بیان قطعاً غلط اور جھوٹ معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اگر یہ چور نہ ہوتے اور آپ کے بھیجے ہوئے ہوتے تو آپ مجھ کو ضرور اطلاع دیتے۔ اس خط کو دیکھ کر افشین بہت شرمندہ ہوا اور عبداللہ بن طاہر کو لکھا کہ وہ لوگ چور نہیں ہیں بلکہ میرے ہی فرستادہ تھے۔ عبداللہ بن طاہر نے افشین کے اس خط کو دیکھ کو چھوڑ دیا، مگر سامان جو ان سے چھینا تھا وہ نہیں دیا۔
اس امر کی ایک خفیہ رپوٹ عبداللہ بن طاہر نے خلیفہ معتصم کے پاس بھی بھیج دی جس پر بظاہر خلیفہ معتصم نے کوئی التفات نہیں کیا۔ حقیقت یہ تھی کہ افشین اپنی ریاست و سلطنت اشروسنہ میں قائم کرنا چاہتا تھا اور اسی لیے وہ پیشتر سے تیاری کر رہا تھا۔ جب افشین جنگ بابک سے فارغ ہو کر سامرا میں واپس آیا تو اس کو توقع تھی کہ خلیفہ معتصم مجھ کو خراسان کی گورنری عطا کرے گا اور اس طرح مجھ کو بخوبی موقع مل جائے گا کہ میں اپنی حکومت و سلطنت کے لیے بخوبی تیاری کر سکوں لیکن خلیفہ متعصم نے اس آرمینیا و آذربائیجان کی حکومت پر مامور کیا اور امید خراسان کا خون ہو گیا۔
اس کے بعد جنگ روم پیش آگئی، افشین کو اس لڑائی میں بھی شریک ہونا پڑا مگر اس جنگ میں معتصم خود موجود تھا اور اس نے ابتدا میں اگر کسی کو سپہ سالار اعظم بنایا تھا تو وہ عجیف تھا، جو اپنے آپ کو افشین کا مد مقابل اور رقیب سمجھتا تھا۔ عجیف کا جو انجام ہوا وہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔ اب افشین نے ایک اور تدبیر سوچی، وہ یہ کہ مازیار حاکم طبرستان کو پوشیدہ طور پر ایک خط بھیجا اور عبداللہ بن طاہر کے مقابلے پر ابھارا اس خط کا مضمون یہ تھا: ’’دین زردشتی کا کوئی ناصر و مددگار میرے اور تمہارے سوا نہیں ہے، بابک بھی اس دین کی حمایت میں کوشاں تھا، لیکن وہ محض اپنی حماقت کی وجہ سے ہلاک و برباد ہوا۔ اور اس نے میری نصیحتوں پر مطلق توجہ نہ کی۔ اس وقت بھی ایک زرین موقع حاصل ہے۔ وہ یہ کہ تم علم مخالفت بلند کر دو۔ یہ لوگ تمہارے مقابلے کے لیے میرے سوا یقینا کسی دوسرے کو مامور نہ کریں گے، اس وقت میرے پاس
|