Maktaba Wahhabi

156 - 868
کلثوم بن ثابت خراسان کا پرچہ نویس موجود تھا اس نے فوراً اس واقعہ کی اطلاع لکھ کر مامون کے پاس بغداد روانہ کی۔ مامون نے جب اس عرض داشت کو پڑھا تو احمد بن ابی خالد وزیر اعظم کو طلب کر کے اطلاع دی اور حکم دیا کہ فوراً فوج لے کر خراسان کی طرف روانہ ہو جاؤ اور چونکہ تم ہی طاہر کے ضامن بنے تھے، لہٰذا اب تم ہی جا کر خراسان کو اس کے فتنے سے بچاؤ۔ اور طاہر کو گرفتار کر کے لاؤ۔ احمد بن ابی خالد نے سفر خراسان کے لیے تیاری شروع کر دی۔ اگلے دن بغداد میں مامون الرشید کے پاس دوسرا پرچہ پہنچا کہ طاہر نے ہفتہ کے روز انتقال کیا۔ طاہر کا انتقال دفعتاً ہوا، جمعہ کے دن ہی اس کو بخار چڑھا اور شنبہ کے روز جب دیر تک خواب گاہ سے برآمد نہ ہوا تو لوگ اندر گئے اور دیکھا کہ طاہر چادر اوڑھے ہوئے مردہ پڑا ہے، غالباً اسی غلام نے جو مامون الرشید نے رخصت کرتے وقت طاہر کو عطا کیا تھا طاہر کی نیت بدلی ہوئی دیکھ کر اس کو زہر دے دیا۔ مامون الرشید نے طاہر کے مرنے کی خبر سن کر کہا کہ (الحمدللّٰہ الذی قدمہ و اخرنا) یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے طاہر کو مجھ سے پہلے وفات دی۔ اس کے بعد مامون نے طاہر کے بیٹے طلحہ بن طاہر کو خراسان کی سند حکومت عطا فرمائی اور احمد بن ابی خالد کو خراسان اس لیے روانہ کیا کہ وہ جا کر طلحہ بن طاہر کو اچھی طرح خراسان پر قابض و متصرف کر دے اور کسی بغاوت و سرکشی کے امکان کو باقی نہ رہنے دے۔ مامون کی یہ خصلت خاص طور پر قابل تذکرہ ہے کہ وہ ہر ایک باغی یا سرکش کو اس کی بداعمالی کی سزا دیتا اور قتل کرا دینے میں دریغ نہیں کرتا تھا، مگر اس مجرم کے خاندان اور متعلقین کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ اور زیادہ احسان کر کے اپنا لیتا تھا۔ احمد بن ابی خالد نے خراسان جا کر اور ماوراء النہر کے علاقہ میں پہنچ کر وہاں کے سرکش لوگوں کو قرار واقعی سزائیں دیں اور جب یہ خبر سنی کہ طاہر کے بھائی حسین بن حسین بن مصعب نے کرمان میں علم بغاوت بلند کیا ہے تو کرمان پہنچ کر اس کو گرفتار کیا اور مامون کی خدمت میں لا کر اس کو پیش کیا۔ مامون نے حسین بن حسین کی خطا معاف کر دی۔ احمد بن ابی خالد جب خراسان سے دارالخلافہ بغداد کی طرف واپس آنے لگا تو طلحہ بن طاہر نے تیس لاکھ درہم نقد اور ایک لاکھ کا اسباب بطور نذر احمد بن ابی خالد کی خدمت میں پیش کیا۔ اور اس کے کاتب کو پانچ لاکھ درہم دیئے۔ اسی سال مامون الرشید نے محمد بن جعفر عامری کو نصر بن شیث کے پاس جس کو عبداللہ بن طاہر متواتر لڑائیوں کے بعد دباتا اور ہٹاتا جاتا تھا، بطور سفیر روانہ کیا اور اطاعت قبول کر لینے کی ترغیب دی۔ نصر بن شیث نے کہا کہ میں مامون الرشید سے صلح کر لینے پر آمادہ ہوں ، لیکن شرط یہ ہے کہ میں مامون
Flag Counter