کو سپہ سالاری کا عہدہ عطا کر دیا، یزید بن مزید فوت ہو گیا تو اس کے لڑکے اسد بن یزید کے پاس رہنے لگا، جب اسد آرمینیا کی حکومت سے معزول ہوا تو ابوالسرایا، احمد بن مزید کے پاس چلا گیا، امین نے احمد بن مزید کو جنگ ہرثمہ پر مامور کیا تو احمد بن مزید نے ابوالسرایا کو اپنے لشکر کے مقدمۃ الجیش کی سرداری عطا کی، ہرثمہ نے اس سے سازش کر لی اور یہ ہرثمہ کے پاس چلا گیا۔
ہرثمہ کے پاس جا کر اس نے جزیرہ سے اپنے قبیلہ بنو شیبان کے آدمیوں کو بلایا، وہ دو ہزار کی تعداد میں جزیرہ سے آکر ہرثمہ کے لشکر میں بھرتی ہو گئے، ابوالسرایا نے ہرثمہ سے کہہ کر ان کے بڑے بڑے روزینے مقرر کرائے، جب امین مقتول ہوا تو ہرثمہ نے بنو شیبان کے روزینے دینے سے انکار کیا، ابوالسرایا نے ناراض ہو کر ہرثمہ سے حج کی اجازت چاہی، ہرثمہ نے اجازت دے دی اور بیس ہزار درہم سفر خرچ عطا کیا، ابوالسرایا نے یہ بیس ہزار درہم اپنے ہمراہیوں کو تقسیم کر دیے اور کہا کہ تم لوگ بھی ایک ایک دو دو کر کے میرے پاس چلے آنا، چنانچہ ابوالسرایا ہرثمہ سے رخصت ہو کر بظاہر حج کے ارادے سے روانہ ہوا، راستے میں قیام کر دیا اور وہیں دو سو آدمی آ آکر اس کے پاس جمع ہو گئے، ان لوگوں کو مرتب کر کے ابوالسرایا نے عین التمر پر حملہ کیا اور وہاں کے عاملوں کو گرفتار کر کے عین التمر کو خوب لوٹا اور مال غنیمت اپنے ہمراہیوں کو تقسیم کر دیا، پھر اس نے اپنی لوٹ مار کے سلسلے کو جاری رکھ کر کئی مقامات سے سرکاری خزانے لوٹے۔
ہرثمہ نے اس کی سرکوبی و گرفتاری کے لیے فوجی بھیجے، ابوالسرایا نے اس کو شکست دے کر بھگا دیا، اس کے بقیہ ہمراہی بھی اس سے آ ملے اور اس کی جمعیت بڑھ گئی، اس کے بعد ابوالسرایا نے وقوقا کے عامل کو شکست دے کر وہاں کا خزانہ لوٹا، پھر انبار کا قصد کیا اور وہاں کے عامل ابراہیم شروی کو قتل کر کے انبار کو خوب لوٹا اور مال غنیمت اپنے ہمراہیوں کو تقسیم کر کے چل دیا، انبار سے روانہ ہو کر طوق بن مالک تغلبی کے پاس گیا، وہاں سے رقہ کی جانب روانہ ہوا، وہاں اتفاقاً محمد بن ابراہیم بن اسمٰعیل بن ابراہیم بن حسن مثنی بن علی سے ملاقات ہو گئی جو مدعی خلافت بن کر اٹھے تھے اور اپنے گروہ کو لے کر رقہ سے نکلے تھے، ان کے باپ ابراہیم طباطبا کے لقب سے یاد کیے جاتے تھے، اس لیے یہ ابن طباطبا مشہور تھے۔
اب یہ وہ زمانہ تھا کہ حسن بن سہل عراق و حجاز و یمن وغیرہ کا حاکم مقرر ہو کر بغداد میں آ چکا تھا اور عام طور پر اہل عرب، اہل عجم کے اقتدار کو خطرے اور نفرت کی نظر سے دیکھ رہے تھے اور مامون کی خلافت کو اپنے لیے مضر سمجھنے لگے تھے، علوی لوگ جا بجا اس حالت سے فائدہ اٹھانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔
ادھر نصر بن شیث نے اعلان کر دیا کہ میں خاندان عباسیہ کا مخالف اور دشمن نہیں ہوں بلکہ موجودہ
|