دروازے پر طلب کر کے اس کا سر اتار لاؤ۔ مسرور اس حکم کو سن کر سہم گیا مگر ہارون نے سختی سے کہا کہ میرے اس حکم کی فوراً بلا توقف تعمیل ہونی چاہیے۔ مسرور اسی وقت رخصت ہوا اور جعفر کے خیمہ میں جا کر اس کا سر اتار لایا۔ اسی شب میں خلیفہ ہارون نے جعفر کے بھائی اور باپ فضل و یحییٰ کو بھی قید کر دیا اور فوراً ایک حکم عام جاری کیا کہ جعفر و فضل و یحییٰ کی تمام جائیداد جہاں کہیں ہو ضبط کر لی جائے۔ اس کے بعد برامکہ خاندان کے ہر ایک متنفس کو گرفتار و قید کر لیا گیا۔ برمکیوں کے تمام آوردوں کو ولایتوں کی حکومت و ذمہ داری کے عہدوں سے الگ کر دیا گیا۔ اس طرح ہارون الرشید نے ایک ہی رات میں برمکیوں کے خطرہ کو مٹا کر اطمینان حاصل کر لیا اور اس کام کو اس خوبی اور اہتمام کے ساتھ کیا کہ کسی کو بھی کان ہلانے کا موقع نہ ملا۔
یحییٰ بن خالد کے بھائی محمد بن خالد برمکی کی وفا داری پر ہارون الرشید کو اعتماد تھا اور ممکن ہے کہ محمد بن خالد ہی نے بعض راز کی باتوں سے ہارون الرشید کو آگاہ کیا ہو۔ اس لیے ہارون الرشید نے محمد بن خالد کو گرفتار و قید نہیں کیا۔ ادھر ہارون الرشید کے خاندان کا ایک معزز رکن عبدالملک بن صالح بن علی بن عبداللہ بن عباس جو رشتہ میں ہارون الرشید کا دادا ہوتا تھا، برمکیوں کی سازش میں شریک تھا، جس کو خلافت کی توقع دلائی گئی تھی، برمکیوں کو قید کرنے کے بعد ہارون الرشید نے عبدالملک بن صالح کو بھی قید کر دیا۔ عبدالملک بن صالح کے بیٹے عبدالرحمن نے اپنے باپ کے خلاف گواہی دی تھی۔ عبدالملک مامون الرشید کے زمانے تک قید رہا۔ مامون نے اپنے عہد حکومت میں اس کو قید سے آزاد کر دیا، ابراہیم بن عثمان بن نہیک بھی برمکیوں کا شریک تھا، لہٰذا اس کو بھی قتل کیا گیا۔ یحییٰ برمکی نے ۱۹۰ھ میں اور فضل برمکی نے ۱۹۳ھ میں بحالت قید وفات پائی۔
برامکہ چونکہ لوگوں کو روپیہ بے دریغ دیتے تھے اور شعراء کی خوب قدر دانی کرتے تھے لہٰذا ان کی بربادی کے بعد عام لوگوں کو جو اصلیت سے ناواقف تھے ملال ہوا اور انہوں نے ہارون الرشید کو ظالم قرار دیا۔ شعراء نے ان کے مرثیے لکھے۔ قصہ گویوں نے ان کی سخاوت اور خوبیوں کو مبالغہ کے ساتھ بیان کیا۔ ہارون الرشید نے برامکہ کی سازش کے حالات کو افشاء نہیں ہونے دیا اور نہایت سختی کے ساتھ احکام جاری کیے کہ کوئی شخص برامکہ کا نام تک نہ لے۔ لہٰذا خود ہارون الرشید کے زمانے میں بھی عام لوگ برامکہ کے صحیح اسباب کو معلوم نہ کر سکے۔ اگر برامکہ کی غداری اور سازش کا حال معلوم عوام ہو جاتا تو اس میں ہارون اور سلطنت عباسیہ کی ہوا خیزی ہونے کے علاوہ فوراً نئی سازشوں کے پیدا اور سرسبز ہونے کا قوی احتمال تھا۔ ہارون الرشید کی یہ بھی کمال دور اندیشی تھی کہ اس نے برامکہ کے متعلق کوئی بیان شائع نہیں
|