﴿ مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰه ﴾ (النساء: 80)
رسول کی اطاعت فی الحقیقت اللہ کی اطاعت ہے۔ ان دونوں اطاعتوں میں فرق نہیں ہے۔
﴿ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّٰه ﴾ (النساء: 64)
’’ہر رسول کی اطاعت اللہ کی اجازت سے ہے۔‘‘ (ارشاد اللہ تعالیٰ کا ہے زبان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی)
(3) ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰه وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰه وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴾ (النساء: 59)
’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ارباب حکم و اقتدار کی۔ لیکن اگر ان سے کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کے سپرد کرو۔ اگر تم اللہ اور آخرت پر یقین رکھتے ہو، یہ طریق انجام کار بہتر ہے۔‘‘
اس مقام میں قرآن عزیز میں تین اطاعتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ پہلی دو اطاعتیں مستقل ہیں جن میں تصادم اور نزاع کا امکان ہی نہیں۔ اس لیے وہاں اس خطرے کا اظہار نہیں فرمایا گیا۔ تیسری اطاعت غیر مستقل اور عارضی قسم کی ہے۔ امراء اور اربابِ اقتدار ممکن ہے کوئی ایسی حرکت کر گزریں جو اللہ کی مرضی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے منافی ہو۔ اس صورت میں ان کی اطاعت ختم ہو جائے گی۔ اربابِ اقتدار کے مصالح کچھ ہی کیوں نہ ہوں، ان کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ نزاع کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس لیے ان کی اطاعت عارضی ہے، مستقل نہیں۔ ﴿ أُولِي الْأَمْرِ ﴾ سے مراد خلافت الٰہیہ ہو یا امارت شرعیہ یا مرکز ملت، ان کی اطاعت عارضی ہو گی اور غیر مستقل۔ اس کے لیے شرط ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں رہیں اور ان سے نزاع نہ کریں۔ آیت کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ سربراہ اور قائد کا جو بھی نام رکھا جائے، اس کی اطاعت اور وفاداری واجب ہے، بشرطیکہ وہ خدا اور اس کے رسول کا وفادار ہو۔
((لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الخَالِقِ)) [1](الحدیث) میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
|