Maktaba Wahhabi

601 - 676
لگا سکا۔ امام زہری رحمہ اللہ کا دامن تو یقیناً کذب اور نفاق سے پاک ہے اور آپ حضرات یقیناً عجمی سازش کا شکار ہیں، جس کا منصوبہ مستشرقین غرب اور مصر کے ملاحدہ نے تیار کیا اور آپ جیسے کچھ دانستہ یا نا دانستہ اس سازش میں شریک ہو گئے اور آپ نے وہ کام کرنے کی کوشش کی، جو عرب اور عجم کے منافق اجتماعی طور پر بھی نہ کر سکے اور یقین ہے کہ آپ بھی نہ کر سکیں گے۔ زہری رحمہ اللہ اور روایت بالمعنی: بعض ائمہ حدیث روایت بالمعنی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ کوشش کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہی بیان کیے جائیں، لیکن چونکہ روایت بالمعنی کا رواج صحابہ سے ہی آ رہا تھا، اس کا رواج عام ہو گیا۔ ’’حدیث افک‘‘ میں امام زہری رحمہ اللہ نے اپنے چار اساتذہ سے اس واقعہ کے بعض حصص کو سنا۔ ان چار میں سعید بن مسیّب کی بجائے سعید بن جبیر کا ذکر فرمایا ہے۔ ہر ایک نے اس واقعہ کے بعض اجزاء ذکر فرمائے، ان میں ایک دوسرے کی تصدیق تھی۔ واقعہ کی تفصیلات میں الفاظ کا اختلاف تھا، امام زہری رحمہ اللہ نے پورے واقعہ کو چاروں اساتذہ سے سن کر مرتب فرمایا، تاکہ واقعہ یکجا آ جائے۔ امام زہری رحمہ اللہ پر گو بعض ائمہ نے اعتراض کیا ہے، لیکن یہ روایت بالمعنی ہی کا ایک طریق ہے۔ عام ائمہ حدیث نے اسے پسند کیا اور زہری رحمہ اللہ سے اس حدیث کو بلا نکیر روایت کیا ہے۔ عمادی صاحب کی دانش مندی قابل داد ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’یہ پوری حدیث خود ابن شہاب کی تالیف کردہ ہے۔‘‘ کس قدر جرأت ہے! غلط گوئی اور جھوٹ کی کتنی دلیرانہ واردات ہے۔ سند موجود ہے، اساتذہ موجود ہیں اور مختلف حصص بھی کتب احادیث سے مل سکتے ہیں، لیکن دیانت ملاحظہ فرمائیے کہ ’’یہ پوری حدیث زہری رحمہ اللہ کی تالیف کردہ ہے۔‘‘ یہ حضرات ہیں جو ائمہ حدیث کی دیانت پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ زہری رحمہ اللہ کے اس صنیع کو ناپسند کرنا دوسری بات ہے، لیکن اسے زہری رحمہ اللہ کی تالیف کہنا دیانت داری کے منافی ہے۔ ادراج: عام ائمہ حدیث درس و تدریس کے وقت بعض الفاظ شرح و تفسیر کے طور پر فرما دیتے، ذہین طالب علم متن اور تشریح میں امتیاز کر لیتے۔ اگر شبہ ہوتا تو دریافت فرما لیتے۔ اساتذہ ضرورتاً ایسا کرنے پر مجبور تھے۔ افہام و تفہیم کے لیے یہ ضروری تھا۔
Flag Counter