چھ کتابوں (صحاح ستہ) میں جو احادیث لکھی گئی ہیں، وہ دراصل ابوبکر بن حزم رحمہ اللہ، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کی ’’سازش‘‘ سے لکھی گئیں اور یہ سب کچھ بنو امیہ کی خالص عربی حکومت میں ہوا۔ نیم عجمی حکومت میں ان احادیث پر فقہی ابواب کا اضافہ واقعی ہوا، لیکن جہاں تک احادیث کا تعلق ہے، وہ ذخیرہ بالکل وہی ہے، جس کی تاسیس بلکہ ایک حد تک تکمیل عربی حکومت میں ان عرب اساطین سنت کی سرپرستی میں ہوئی۔ حسب اصطلاح سائل محترم، مصنفین صحاح نے اس ’’عربی سازش‘‘ میں معقول اور خوشنما اضافہ فرمایا اور اس کی تکمیل کی اور یہ کوئی جرم نہیں، نہ ہی اس پر کسی تأسف کی ضرورت ہونی چاہیے۔
نیم عجمی حکومت کے بعض ’’کارنامے‘‘:
نیم عجمی حکومت کے سربراہ کے بعض تاریخی کارنامے جو آج تاریخ کی زینت بنے ہوئے ہیں:
(1) مامون نے اپنے بھائی مؤتمن کو ولی عہدی سے معزول کر کے حضرت جعفر صادق کے پوتے علی رضا کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ [1] دیکھیے! عجمیت زدہ خلیفہ نے ہاشمی عربوں کے لیے جگہ خالی کر دی!
(2) سیاہ لباس جو نیم عجمی حکومت کا شعار تھا، اسے بدل کر سبز لباس کر دیا۔[2]
(3) اعلان کر دیا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر خیر نہ کیا جائے۔ [3]
انسانی ذہن بدکتے رہتے ہیں اور مطلق العنان بادشاہوں کے خیال میں جو کچھ آئے کر گزرتے ہیں، اس میں نہ کوئی سازش ہوتی ہے نہ کوئی مشورہ۔ ائمہ حدیث اسی لیے ان درباروں سے الگ تھلگ رہ کر اسلام کی خدمت میں مشغول رہے اور بوقت ضرورت حکومت کے اعمال پر مناسب تنقید کرتے رہے۔ مصنفین صحاح کی یہ خدمت بھی اسی نوعیت کی تھی، جو انہوں نے اس دورِ مفاسد میں انجام دی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی کو قبول فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ افسوس ہے کہ ہم نے اس پاک باز گروہ کی مساعی جمیلہ کا احسان مند ہونے کی بجائے ان کو سازشی کہہ کر بدنام کرنا شروع کر دیا ہے۔ وہم و خیال سے بحث کے لیے تو بہت کچھ بنایا جا سکتا
|