مولانا تمنا کے تنقیدی مضمون کا علمی محاسبہ
’’البیان‘‘ جنوری 50ء میں ایک مضمون شائع ہوا، جس میں مولانا تمنا نے میری بعض گزارشات پر تنقید فرمائی ہے، جو ظن کے مفہوم کے متعلق ’’اسلامی زندگی‘‘ میں شائع ہوئیں۔ [1]
مولانا کا مقالہ بہت لمبا ہے، جس کا زیادہ حصہ مولانا نے اپنی بعض تصنیفات کے لیے بطور تعارف لکھا ہے۔ اگر تشہیرِ مصنفات کے لیے کسی دوسری فرصت کا انتظار فرما لیا جاتا، تو مقالہ کا طول و عرض بہت مختصر ہوتا۔
میری گزارشات کے متعلق مولانا نے بہت کم لکھا ہے۔ اگر مولانا کا مقالہ اصل موضوع پر لکھا جاتا، تو ہمیں بہت زیادہ استفادہ کا موقع ملتا۔ اگر مولانا نے زیر تصنیف مسودات شائع فرمائے اور صحت و فرصت میسر آئی، تو ان پر بھی ان شاء اللہ اظہار رائے سے گریز نہ ہو گا۔ اس وقت ان ضمنی مباحث پر لکھنے کا ارادہ نہیں۔
اہل قرآن کے مسلک:
مولانا عبداللہ آنجہانی اور ان کے رفقاء حجیت حدیث کے منکر ہونے کے ساتھ ائمہ حدیث اور دواوینِ حدیث پر تبرّا بھی فرمایا کرتے تھے۔ بہت سے متواتر مسلّمات میں ترمیم کے قائل تھے اور بہت سے مسائل الف لام اور اضافت سے کشید فرمانے کی کوشش کرتے تھے۔
امرتسر کی جماعت میں تبرّا کی عادت کسی قدر کم تھی۔ مسلّمات متواترہ میں ترمیم کا رواج بھی ان میں کم تھا، لیکن تاویل ہمرنگ تحریف کے بادشاہ تھے۔ معجزات میں تاویل اور نیچریت کا رنگ غالب تھا۔ دینی علوم اور علوم آلیہ میں دسترس بہت کم تھی، اس لیے ان کی تصنیفات کا انداز لیڈرانہ ہے۔
گوجرانوالہ کی جماعت علمی لحاظ سے کچھ قابل تعریف نہیں۔ مزاج میں بے ادبی غالب، بے عملی اور بد عملی ان حضرات کا امتیازی نشان ہے۔ ایک صاحب ان میں مدعیِ نبوت بھی تھے!
|