گجرات، ڈیری غازی خان اور ملتان کے اہل قرآن دوستوں میں الحاد غالب ہے۔ دہلی سے جو لوگ اب کراچی تشریف لائے، وہ سیاسی شیرینی میں انکار حدیث کا زہر سمونے میں تجربہ کار مشاق ہیں۔ گفتگو کے انداز لیڈرانہ، علوم خادمہ سے بہت کم آشنا، انگریزی علوم کے ساتھ فرنگیانہ طریق استدلال طبائع پر غالب ہے۔ زبان اچھی لکھتے ہیں۔ غالی آدمی ان کی تحریروں سے جلدی دھوکا کھا جاتا ہے اور قدر مشترک یہ ہے کہ علوم حدیثیہ سے کافی نا آشنا ہیں، علوم خادمہ پر بھی نظر نہیں، اس کا اثر جو قرآن فہمی پر ہونا چاہیے، نمایاں ہے۔
مولانا تمنا بظاہر حدیث کو حجت سمجھتے ہیں، لیکن محدثین کی تنقید اور اصول تنقید سے غیر مطمئن ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ قرآن کو جو معیاری مقام حاصل ہونا چاہیے، وہ اسے نہیں دیا گیا۔ مولانا کا انداز تنقید اتنا تلخ اور مبنی برغلو ہے کہ ان کی حدیث اور سنت سے معمولی دلچسپی بھی انکار حدیث کے مترادف ہے، بلکہ اہل سنت کے لیے زیادہ مضر! میرا خیال ہے کہ ان کی تلخ نوائی جاہل اہل قرآن کے تبرّا سے کم نہیں۔ میری آئندہ گزارشات مولانا کی اس مرکب پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے ہوں گی۔
مولانا ائمہ حدیث کو چور اور ڈاکو سمجھتے ہیں اور خود بحیثیت کوتوال ’’قرآنی ٹارچ‘‘ لے کر ان چوروں کے گھروں سے اپنا مال برآمد فرمانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ إِنَّا لِلَّـهِ!
تحقیق کے جس مقام پر مولانا اس وقت فائز ہو رہے ہیں، یہاں پہنچ کر حضرات اہل قرآن عموماً دہریت کی آغوش میں استراحت فرماتے ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکوۃ، غرض اکثر فرائض سے دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا کو اس تباہی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مقالہ کا اجمالی جائزہ:
مولانا کو ظن سے نفرت ہے وہ اس سے بچنا چاہتے ہیں۔ مناسب ہو گا کہ وہ اپنے گرامی مقالہ کا جائزہ لیں کہ آیا وہ ظن کی گرفت سے باہر ہیں یا ظن ان پر محیط ہے؟
(1) ’’قرآن مجید یقینی دستاویز ہے، لیکن اس کے مدلول کو متعین کرنے کے لیے احادیث کی طرف رجوع ضروری ہے۔‘‘ (البیان، ص: 22)
اور احادیث مولانا کی نظر میں ظنی ہیں!
(2) ’’اہل لغت نے موضوع احادیث سے کافی حد تک استناد کیا ہے۔ اہل لغت نے
|