Maktaba Wahhabi

199 - 676
ان عملی تفصیلات کو قرآن سے برآمد کرنے کے لیے جو تکلفات کیے گئے ہیں، علمی طور پر ان کی کوئی قیمت نہیں۔ اہل علم تو خیر ان سے کیا متاثر ہوں گے، جہلاء کے لیے بھی ان میں کوئی تسکین نہیں۔ اہل قرآن کی مختلف پارٹیوں کی انکشافی مساعی نے نماز کا جو آپریشن کیا ہے، وہ اس گزارش پر شاہد عدل ہے اور پھر وہ بھی کتاب اللہ پر زیادت ہی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مولوی عبداللہ، مولوی رمضان کی ترمیم و اصلاح شدہ نمازیں بھی قرآن پر زیادت ہیں اور بخاری کی نماز بھی زیادت ہی ہے۔ تینوں میں سے کسے قبول کرنا ہے اور کسے رد کرنا ہے؟ یہ حضرات اہل قرآن کی صوابدید پر ہے۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ کا قول: حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ (المتوفی 643ھ) فرماتے ہیں: ’’إن أمثال المتواتر علي التفسير المتقدم يعز وجوده إلا أن يدّعيٰ ذلك في حديث مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ‘‘ (نزهة النظر:11،و مقدمه ابن صلاح:135) [1] یعنی متواتر کا وجود بہت کم ہے، یہ دعویٰ صرف حدیث ’’ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ ‘‘ الخ کے متعلق کیا جا سکتا ہے۔ حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ کی جلالتِ قدر کی بنا پر ان کے اس ارشاد سے بے حد مغالطہ ہوا۔ لوگوں نے سمجھا کہ شاید متواتر کا وجود ہی دنیا میں ناپید ہے، حالانکہ متواتر میں جہاں کثرتِ رواۃ ضروری ہے، وہاں صفاتِ رواۃ پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ متواتر میں شرط یہ ہے کہ اس کے رواۃ کا جھوٹ پر جمع ہونا ناممکن ہے۔ یہ عدد کی کثرت سے بھی ہو سکتا ہے اور رواۃ کی رفعتِ شان سے بھی۔ بعض وقت ہم ایک آدمی کی شہادت کو ایک جماعت کی شہادت پر ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ اس ایک میں صفاتِ صدق و ثقاہت اس قدر موجود و باقی ہیں، جو ایک جماعت میں نہیں۔ یہ عُرف اور عقل کے مسلّمات سے ہے۔ اس
Flag Counter