Maktaba Wahhabi

680 - 676
سے زیادہ فقیہ تھے: ’’وهذا الترجيح ليس إلا باعتبار تمام الضبط من الفقيه، وكان المعني فيه أن نقل الخبر بالمعني كان مشهورا فيهم فمن لا يكون معروفا بالفقه ربما يقصر في أداء المعني بلفظه بناءاً علي فهمه، ويؤمن مثل ذلك من الفقيه‘‘ (أصول سرخسي: 1/349) یعنی یہ ترجیح اس لیے دی گئی کہ فقیہ راوی مفہوم کو بہتر ضبط کر سکتا ہے، چونکہ صحابہ میں روایت بالمعنی عام تھی، غیر فقیہ راوی کبھی حقیقت تک رسائی سے قاصر رہتا ہے اور فقیہ راوی کے متعلق یہ خطرہ نہیں ہوتا۔ اس وقت یہ ظاہر کرنا مطلوب نہیں کہ یہ ترجیح درست ہے یا محل نظر؟ گزارش صرف اس قدر ہے کہ فقہ راوی کی شرط درایت کی طرح روایت بالمعنی کی مضرت سے بچنے کے لیے تھی، لیکن آہستہ آہستہ اسی فقہ راوی کی بنا پر بیسیوں احادیث کو ذبح کر کے رکھ دیا گیا اور بیسیوں ثقہ رواۃ بلکہ صحابہ کو اس مصطلح تفقہ اور درایت کی بنا پر غیر مستند قرار دے دیا گیا۔ حضرت امام ابو حنیفہ کو سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پر ترجیح دی گئی۔ (شامی: 1/57) نقد روایات اور فقہ: اس میں کچھ شک نہیں کہ فقہاءِ حنفیہ اور ائمہ اصول میں فقہ راوی کی شرط تنقید روایات میں کافی مشہور ہے۔ امام سرخسی ایسے اکابر رجال بھی فقہ راوی کی بنا پر تنقید اور ترجیح کا بکثرت تذکرہ فرماتے ہیں۔ نکاحِ میمونہ رضی اللہ عنہا کے سلسلہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترجیح دیتے ہوئے یزید بن الاصم کے متعلق فرماتے ہیں: ’’البوال علي عقبه‘‘۔ یزید بن الاصم کے متعلق علماءِ رجال کا خیال ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے۔ صحابی نہ بھی ہوں، تو اکابر تابعین سے ہوں گے۔ [1] ان بزرگوں کے متعلق یہ اندازِ تنقید اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ ابن سعد فرماتے ہیں: ’’ثقة كثير الحديث‘‘ [2]
Flag Counter