Maktaba Wahhabi

212 - 676
اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت، حسن خلق اور شمائل حسنہ کو نظر انداز کر دیا جائے، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو بھی اگر محل تنقید تصور کر لیا جائے، تو پوری شریعت اور سارا دین اوہام و تصورات کا مجموعہ بن کر رہ جائے گا۔ العياذ باللّٰه ! اس لیے عقلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی دونوں قسمیں جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی طرف منسوب فرمایا، یعنی وحیِ متلو (قرآن) جس کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوں، یا غیر متلو جس کا مفہوم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونا یقینی ہے، اس کی حجیت عقلاً ضروری ہو گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے متعلق قرآن حکیم کا فیصلہ ہے کہ ان کی بنیاد ہوائے نفس پر نہیں: ﴿ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾﴾ (النجم: 3، 4) ’’پیغمبر اپنی خواہش سے نہیں بولتے، وہ جو کچھ فرماتے ہیں، خدا کی وحی سے فرماتے ہیں۔‘‘ نفسانی خواہشات کے لیے وہاں تک گزر کی کوئی گنجائش نہیں۔ صحابہ کا عمل جس کا تذکرہ ابتدائی سطور میں مختصراً آیا ہے، اس کا شاہد ہے۔ تمام تنازعات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کی حیثیت آخری حکم کی رہی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا طرز عمل: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تمام صحابہ کی طرح حدیث کو حجت سمجھے تھے، خصومات میں حدیث پر اعتماد فرماتے۔ جدّه کے حصہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اپنی رائے سے رجوع اور حدیث پر اعتماد مشہور واقعہ ہے۔ [1]
Flag Counter