درایت، تاریخ، رجال، ہر چیز کو آلاتِ تنقید کے طور پر استعمال فرمایا، پھر تغیرِ احوال کے ساتھ یہ اصول بھی بدلتے رہے۔ ایک وقت میں مرسل روایت کو حجت مانا گیا، لیکن جب حالات کے تقاضے بدلے تو مرسل کی حجیت پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ بلکہ مرسل کو ضعیف کی قسموں میں شمار کیا۔ كما صرح به الشافعي في الرسالة [1]
اسی طرح اتصالِ سند میں امکانِ بقا کے بعد وقوعِ لقا پر زور دیا گیا، نیز مقارنت اور امکانِ لقا کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا گیا۔ (شروح بخاری و مقدمہ صحیح مسلم) [2]
روایت اور درایت کی تقدیم و اعتبار میں بڑی سنجیدگی سے غور فرمایا گیا اور ہر چیز کی اہمیت بلحاظ مقام ملحوظ رکھی گئی۔ تنقید میں بے اعتدالی اور اپنی عقل کو نصوص پر مقدم کرنے کے لیے اگر کوئی بہانہ بنایا گیا تو اس کی مخالفت اب بھی ہو گی لیکن عقل کی جائز مراعات سے کبھی انکار نہیں کیا گیا۔ فطری قواعد اور متواتر امور اور قرآنِ عزیز کے توافق کی اہمیت کو محدثین اور ائمہ سنت نے بھی نظر انداز نہیں فرمایا۔ جزاهم اللّٰه عنا و عن المسلمين خير الجزاء
تنقیدِ احادیث اور اجتہاد:
تنقیدِ احادیث میں حافظ ابن صلاح کی یہ رائے تھی کہ اس میں اجتہاد کی اجازت نہ دی جائے۔ کسی شخص کو متقدمین ائمہ کے بعد تنقید کا حق نہ دیا جائے۔ [3] لیکن ائمہ حدیث میں یہ رائے حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ کی جلالتِ قدر کے باوجود تسلیم نہیں کی گئی، بلکہ ائمہ نے وسعتِ ظرف کے ساتھ اس معاملہ میں تحقیق کی اجازت دی۔ حافظ دارقطنی نے صحیح پر استدراک فرمایا۔ امام حاکم کی مستدرک اسی قسم کی ایک کوشش ہے۔ مسند ابو عوانہ کا انداز بھی صحیح مسلم پر استدراک ہی کا ہے۔ ان استدراکات پر تحقیقی جوابات بھی ائمہ نے دیے، مگر ان وسعتوں کے باوجود صحیحین کا مقام گرایا نہیں جا سکتا، بلکہ یہ ائمہ ان استدراکات کے باوجود صحیحین کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے رہے اور حدیث نبوی
|