منکرینِ حدیث دریافت کرتے ہیں کہ حضرت نے اس قدر ملامت کے بعد ہمیں کیا عنایت فرمایا؟ آپ اور ہم میں نقطہ امتیاز کیا ہے؟
مولانا اصلاحی صاحب:
مولانا اصلاحی مستند اور پختہ کار عالم ہیں۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ ایسے صاحبِ فکر سے انہوں نے استفادہ فرمایا ہے۔ آپ نے اپنے ارشادات میں قریباً وہی سب کچھ فرمایا ہے جو مسلک اعتدال میں کہا گیا ہے، مگر ذہن اور خیالات کی پراگندگی کو الفاظ کی سطح پر نمایاں نہیں ہونے دیا۔ لیکن فضا کی گرمی اور اخبارات کی تیز تنقیدات سے ذہن متاثر ہے۔ بعض مقامات پر لہجہ خاصہ تند ہو گیا ہے۔ طبعی متانت اور فطری سنجیدگی کے باوجود مولانا بعض ایسی چیزیں فرما گئے کہ اگر نہ فرماتے تو بہتر ہوتا۔ ایک متین آدمی کے لیے اس قدر نیچے آ جانا کوئی اچھی مثال نہیں۔
ایک ضروری وضاحت:
زیرِ قلم گزارشات سے مقصد کچھ اپنے مسلک کی وضاحت ہے اور کچھ ان بزرگوں کے ارشادات اور ان کے مضر اثرات کی نشاندہی، تاکہ یہ ظاہر ہو سکے کہ حدیث اور سنت کی حمایت میں وہ راہ صحیح ہے جسے جماعت اسلامی کی قیادت نے اختیار فرمایا، یا وہ مسلک درست ہے جس کی نشاندہی ائمہ حدیث اور سلفِ امت نے فرمائی ہے؟ نیز اسلام کی وسعت اور ہمہ گیری ان حضرات کے طریقِ فکر سے ظاہر ہوتی ہے یا اہل حدیث کے طریقِ فکر سے۔ جن مقاصد کی تحصیل اور تکمیل آپ حضرات برسوں سے فرما رہے ہیں، اس کی کفالت اہل حدیث کا مسلک کر سکتا ہے یا آپ کے یہ محتاط اور منقبض خیالات ۔۔!
جہاں تک مولانا اصلاحی اور مولانا مودودی کی ذات کا تعلق ہے یا ان کی اصلاحی مساعی کا، میرے دل میں ان کے لیے پورا احترام ہے۔ گزشتہ ایام میں بعض اخباری اندازِ تحریر سے فضا میں جو تمازت پیدا ہو گئی تھی، میں طبعاً اسے ناپسند کرتا ہوں۔ دین پسند جماعتوں کے تخاطب میں یہ ترشی کبھی نہیں آنی چاہیے اور موجودہ ظروف و احوال تو اس کے لیے قطعاً سازگار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دین پسند جماعتیں جس قدر بھی باہم دست و گریباں ہوں گی، باطل کو اسی قدر فائدہ پہنچے گا۔
’’مسلک اعتدال‘‘ اور مولانا اصلاحی کے ارشادات پر کئی وجوہ سے گفتگو کی جا سکتی ہے، لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ زیرِ قلم گزارشات حدیث اور اس کے متعلقات تک محدود رہیں، تاکہ اس
|