Maktaba Wahhabi

326 - 676
حدیث بہرحال قیاس پر مقدم ہو گی اور اکثر علماء کا یہی خیال ہے۔ خود حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح دیتے ہیں۔‘‘ (کشف الاسرار: 2/703) یہ قاعدہ اصولِ فقہ کی قریباً تمام کتابوں میں مرقوم ہے اور قدماءِ احناف نے بھی اسے پسند نہیں فرمایا کہ ضعیف حدیث پر قیاس کو ترجیح دی جائے۔ ویسے بھی یہ قول غلط ہے۔ قاضی عیسیٰ بن ابان ایسے بزرگ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ جیسے بزرگوں کو جو برسوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے، جن کی مادری زبان عربی ہے، غیر فقیہ کہہ دیں تو بڑی عجیب بات ہے، حالانکہ وہ خود نہ عرب ہیں نہ علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا تفقہ معلوم ہے۔ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم مسائل میں ان کی طرف رجوع فرماتے تھے۔ گورنر تک کے عہدوں پر فائز رہے۔ خود ائمہ احناف نے ان کی حدیث کو خلافِ قیاس قبول فرمایا۔ کشف الاسرار، کتاب التحقیق وغیرہ مبسوطات میں اس کی تفصیل مل سکتی ہے۔ اس کے باوجود متاخرین احناف میں انکار کے لیے جزوی طور پر یہ چور دروازہ کھولا گیا۔ آحاد کو ترک کرنے کے لیے ایک راہ پیدا ہوئی، لیکن اس میں اس قدر احتیاط رکھی گئی کہ وہی احادیث متروک ہوں گی جن کے راوی فقیہ نہ ہوں گے (یہاں فقہ سے مراد یہ ہے کہ وہ راوی عربی زبان کو اچھی طرح جانتا ہو، تاکہ روایت بالمعنی میں غلطی نہ کرے) فقیہ رواۃ کی روایات رائے کے موافق ہوں یا مخالف، قاضی عیسیٰ بن ابان اور ان کے اَتباع اسے قبول کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ رائے کا دروازہ بند نہیں ہونا چاہیے، کہیں نہ کہیں اس کے لیے گنجائش نکلنی چاہیے۔ اس احتیاط کے باوجود ان کا یہ مذہب قدماءِ احناف میں قبولیت حاصل نہ کر سکا۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ، امام ابو یوسف رحمہ اللہ، امام محمد اور حضرت امام کے مشہور تلامذہ کو قاضی عیسیٰ بن ابان سے ان کی اس احتیاط کے باوجود اختلاف ہے۔ صحیح راہ وہی ہے جسے جمہور ائمہ سنت نے اختیار فرمایا۔ قاضی عیسٰی بن ابان کے مسلک میں سے اعتزال کی بو آتی ہے، اور ائمہ حدیث کا نقطہ نظر تو قدماء اور اکابر احناف سے بھی مختلف ہے۔ تیسرا دور: متاخرین احناف میں قاضی عیسیٰ بن ابان کے مسلک پر عمل ہونے لگا۔ فقہ اور اصولِ فقہ میں
Flag Counter