Maktaba Wahhabi

337 - 676
پورے وثوق سے عرض کروں گا کہ نقدِ حدیث کے متعلق فقہاءِ عراق نے عقل کی روشنی میں آج تک کوئی اصل وضع نہیں کی۔ یہ مولانا شبلی مرحوم اور مولانا مودودی کا ایک ایسا خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں۔ یہ ایک ایسا تخیل ہے جس کا نفس الامر سے کوئی تعلق نہیں۔ تنقیدِ حدیث کے متعلق آج تک جو کچھ ہے عقلی ہو یا نقلی، روایت کے نقطہ نظر سے ہو یا درایت کے لحاظ سے، سب ائمہ حدیث کی مساعی کا مرہونِ منت ہے۔ یہ میرا ہی خیال نہیں بلکہ آج سے چند سال قبل مولانا عبدالجبار عمر پوری، مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی، مولانا عبدالسلام مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہم نے بھی پوری آواز سے اس کا اعلان کیا۔ یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ان کے اَتباع و اَحفاد یہ سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہیں، لیکن خاموشی پر مجبور ہیں۔ إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اصول اور قیاس میں ائمہ عراق کی کوششیں قابلِ صد ہزار تحسین ہیں۔ ان کی موشگافیاں علمی حلقوں سے داد حاصل کر چکی ہیں، لیکن معلوم ہے کہ وہ عقل کے اصول نہیں، بلکہ وہ ایک خاص طریقِ فکر کی تخریجات ہیں جن کی غیر معقولیت جماعت اسلامی کے حلقوں میں بھی مسلّم ہے۔ حال ہی میں مولانا اصلاحی کا ایک پر مغز مقالہ زکوٰۃ کی تملیک کے متعلق شائع ہوا جس میں احناف کے مسلک پر کڑی اور کھلی تنقید فرمائی گئی تھی اور مولانا مودودی نے بھی اپنے رسالہ ’’پردہ‘‘ میں بعض فقہی مسائل پر بڑی بے لاگ تنقید کی، تو یہ خیال ہمارے اور آپ کے حلقوں میں مسلم ہے، اس لیے اس بحث میں آپ حضرات کا وقت ضائع کرنا مناسب نہیں۔ اصل نزاع: بحث اس میں نہیں کہ فہم اور تنقیدِ حدیث میں محدثین کے نزدیک عقل اور درایت کو دخل ہے یا نہیں؟ کیونکہ پورے دین کا خطاب عقل مندوں سے ہے، بلکہ بحث اس میں ہے کہ آیا ہر مدعیِ عقل کو یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ قرآن و سنت کو اپنی عقل کی سان پر رکھ کر پرکھنا شروع کر دے اور جو حکم اس معیار پر پورا نہ اتر سکے اس کا انکار کر دیا جائے یا اسے ماخذ کے لیے تعصب سے تعبیر فرما کر حقارت کی نگاہ سے ٹھکرا دیا جائے؟ آیا عقل و درایت کو حدیث اور سنت کے اس قتلِ عام کی اجازت ہونی چاہیے؟ ائمہ اور حفاظِ حدیث اور آج کے گنہگار اہلِ حدیث اس کے مخالف ہیں اور ان شاء اللہ رہیں گے۔ الفاظ کی تعبیر میں تنوع اور اسالیبِ کلام میں ہیرا پھیری سے حقائق نہیں بدل سکتے۔
Flag Counter