علم اور جہالت میں فرق:
ابن خلدون یورپ کے مؤرخین میں مسلمہ امام ہیں۔ تاریخ کی جدید تدوین ان کی رہینِ منت ہے۔ یہ خود اندلس کے رہنے والے اور عجمی ہیں، لیکن وہ عالم ہیں۔ علوم کی تدوین اور ان کے تدریجی ارتقاء کی پوری تاریخ ان کی نظر میں ہے۔ وہ اس حقیقت کی علمی تحقیق فرماتے ہیں کہ دینی علوم پر عجمیوں نے کیسے قبضہ کیا اور کیوں؟
’’ومن الغريب الواقع أن حملة العلم في الملة الإسلامية أكثرهم العجم، ولا من العلوم الشرعية ولا من العلوم العقلية إلا القليل النادر، وإن كان منهم العربي في نسبته، فهو عجمي في لغته و مرباه و مشيخته، مع أن الملة عربية و صاحب شريعتها عربي‘‘ (مقدمة، ص: 499)
’’یہ عجیب واقع ہے کہ علماءِ اسلام اکثر عجمی ہیں۔ شرعی اور عقلی علوم میں عرب قلیل اور نادر ہیں۔ اگر ان میں کوئی نسبت کے لحاظ سے عربی ہے تو لغت، تربیت اور شیوخ کے لحاظ سے عجمی ہیں، حالانکہ ملتِ عربی ہے اور نبی بھی عربی۔‘‘
اس کے بعد ابن خلدون اس کی وجہ بتلاتے ہیں:
’’اس کا سبب یہ ہے کہ اسلام میں ابتداءً سادگی تھی۔ اس میں علم اور صنعت نہ تھی۔ بدوی سادگی کا یہی تقاضا تھا۔ دین کے اوامر اور نواہی نقلاً حافظوں میں موجود تھے۔ وہ ان کے ماخذ کو کتاب و سنت سے جانتے تھے۔ انہیں تعلیم و تالیف اور تدوین کی ضرورت نہ تھی۔ یہ طبعی اور قدرتی روش صحابہ اور تابعین کے زمانہ تک قائم رہی۔ اس قسم کے اہل علم کو وہ اپنے عرف میں ’’قراء‘‘ کہتے تھے، اسی طرح قرآن و سنت کے حافظوں کو بھی وہ قاری ہی کے نام سے تعبیر کرتے تھے۔ اس لیے کہ وہ قرآن عزیز اور سنن نبویہ ماثورہ سے مسائل کو سمجھتے تھے اور معلوم ہے کہ حدیث قرآن کی تفسیر ہی تو ہے۔
جب حفظ و نقل کا زمانہ دور ہوتا گیا تو عباسی دور اور ہارون الرشید کی حکومت میں قرآن مجید کے لیے تفاسیر اور احادیث کو قیدِ تحریر میں لانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی اسانید، رجال اور علوم جرح و تعدیل کی ضرورت ابھر آئی، تاکہ حدیث کے
|