Maktaba Wahhabi

206 - 676
نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’مومن خدا تعالیٰ کے دیے ہوئے مال سے خرچ کرتے ہیں اور ڈرتے ہیں، کیونکہ ان کا رجوع اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔‘‘ یہی حال اہل دنیا کا ہے، ان کو اسبابِ دنیا کی سچائی پر اعتماد ہے۔ تاجر اسی ظن پر اپنا سرمایہ صرف کرتا ہے کہ وہ صحت و سلامتی کے ساتھ اس سے فائدہ حاصل کرے گا اور پیشہ اور اس ظن پر گھر سے نکلتا ہے کہ وہ اپنی محنت کا پھل پائے گا۔ کسان صرف امید پر ہی غلبہ کے انبار سپرد خاک کر دیتا ہے۔ خچر، گھوڑوں والے کرایہ ہی کے خیال سے نکلتے ہیں کہ انہیں اجرت ملے گی۔ بادشاہ شہروں کی فصیلیں بناتے ہیں، لشکر بندی کرتے ہیں، اس خیال سے کہ ان کو ان اسباب سے مدد ملے گی اور خود لشکر بھی مسلح ہوتے ہیں کہ وہ سلامت رہیں گے اور غالب ہوں گے۔ سفارشیں اس امید پر کی جاتی ہیں کہ وہ منظور ہوں گی۔ اہل علم بھی اپنی عمر کامیابی کی ہی امید پر صرف کرتے ہیں۔ اسی طرح مناظر اور مجتہد دلائل کی چھان پھٹک کرتے ہیں، انہیں ظن ہے کہ وہ اپنی طلب میں کامیاب ہوں گے۔ بیمار صحت کے خیال سے علاج کرتے ہیں اور عموماً یہ ظن سب سچےنکلتے ہیں، اس لیے ان مصالح کو اس خیال سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ کبھی یہ خیال ظن اور امید بن کر غلط نکلتے ہیں۔ ان ظنون سے بے پروائی صرف جاہل ہی کر سکتے ہیں۔‘‘ (قواعد الأحكام، ص:3) جب ظن و تخمین انسان کی زندگی پر اس طرح محیط ہو، تو پھر اس سے کیونکر بھاگا جا سکتا ہے؟ زندگی کے ہر شعبہ کی بنیاد ظن پر ہے۔ بادشاہوں سے لے کر عامۃ الناس تک ظن کے قبضہ میں ہیں، انبیاء سے لے کر عامۃ المسلمین تک ظن کی رعیت ہیں۔ پھر اگر اس معنی سے حدیث بھی ظن ہے تو اسے قبول کر لینے سے کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے؟ سارے معاملات ظن کی حجیت پر مبنی ہیں۔ اگر کسی نے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ظنی ہونے کے باوجود حجت مان لیا تو کون سا جرم کیا؟ یقین ہے کہاں؟ زندگی کے فراز و نشیب پر غور کرو اور ٹھہر کر سوچو کہ یقین ہے کہاں؟ گنتی کے چند واقعات ہیں
Flag Counter