قابل نہیں کہ ان کی اشاعت کی جائے۔ ان میں جو کچھ صحیح ہے وہ بھی غلط انداز سے کہا گیا ہے۔ ’’مسلکِ اعتدال‘‘ میں تو دماغ کے کباڑ خانہ نے خیالات اس بے اعتدالی سے اُگل دیے ہیں کہ اگر کوئی منکرِ حدیث بھی لکھتا تو یہی کچھ لکھتا۔
ائمہ حدیث کے مناقشات:
مولانا نے محدثین کے باہمی مناقشات کو اہلِ قرآن سے بھی زیادہ نمایاں فرمایا ہے اور اس انداز سے فرمایا ہے کہ شاید مولانا ملت کو کوئی عجیب اور نئی چیز عنایت فرما رہے ہیں۔ مولانا غور فرمائیں! یہ انسانی مزاج کی ایک کمزوری ہے، فنِ رجال کو چھوڑئیے، کوئی فن اس سے خالی نہیں۔ شعر و سخن، ادب، نحو اور قواعد، معانی، بیانِ فقہ اور اصولِ فقہ کس فن میں یہ مناقشات نہیں؟ بقولِ جناب ائمہ تفسیر میں بھی یہ کمزوری موجود ہے اور آپ کی جماعت اور علماء کے مناقشات بھی اس کی ایک کڑی ہیں تو کیا اس بنا پر آپ اور تمام علماء کے افادات سے دست بردار ہونا چاہیے؟
جب سے علمِ رجال وضع ہوا ہے اس قسم کا ذخیرہ موجود ہے اور اس کے باوجود اس میں حق و باطل کا امتیاز غیر مشتبہ طور پر کیا جا سکتا ہے اور کیا گیا ہے۔ پھر اس بے صورت مواد کو حدیث کے دفاع کے موقع پر ذکر کرنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی؟ جہاں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کچھ کہنے کا موقع تھا، وہیں آپ نے شرم سے نظریں نیچی فرما لیں۔ جہاں تن کر چلنے کا موقع تھا آپ سر بسجود ہو گئے!
عبداللہ چکڑالوی، خواجہ احمد دین امرتسری، مستری رمضان گوجرانوالہ، محبوب شاہ گوجرانوالہ، سید عمر شاہ گجرات، شیخ عطاء اللہ وکیل، مفتی محمد دین وکیل گجرات، ملتان کے منکرینِ حدیث، ڈیرہ غازی خان کے اہل قرآن اور ادارہ طلوع اسلام کے ارباب قیادت، اور ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کے ملحدین کے نظریات میں بعد المشرقین اور ان کا باہمی برسوں کا جوت بیزار کسے معلوم نہیں، لیکن کبھی انہوں نے آپ کے سامنے اس کا تذکرہ کیا؟ نماز، زکوٰۃ، حج کے متعلق جو پراگندہ خیالی اور اس کے متعلق جو بدعملی ان اساطینِ الحاد و فسق میں موجود ہے، اس کا کبھی انہوں نے اعتراف کیا؟
پھر مولانا مودودی کو کیا مصیبت ہے کہ امام ابنِ اسحاق رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کی شکر رنجی کا بلا ضرورت تذکرہ چھیڑ دیں۔ علماءِ عراق اور امام مالک رحمہ اللہ کے بعض مخالفانہ آراء و افکار کا اشتہار
|