’’ہر جھوٹی اور موضوع حدیث کو اپنے مسلک کی تائید میں پیش کر سکتے ہیں۔‘‘
بدگمانی کا یہ عالم اور معلومات کی طغیانی کا یہ حال کہ ہر چیز پر بے اعتمادی، ظن اور اس کے نتائج سے گریز ہے اور اس سے مفر کی کوئی صورت پیدا نہیں ہو سکی؎
ہم نے لاکھوں ہی آشیاں بدلے
ابر کی برق باریاں نہ گئیں
اس نفسیاتی تجزیہ کے بعد جو مولانا کے مقالہ سے ظاہر ہے، مولانا حدیث کا انکار کریں یا اقرار، اسے قبول فرمائیں یا رد کریں، نتائج میں کوئی فرق نہیں۔ ان خیالات کی اساس خلوص و دیانت پر ہو یا جحود و عناد پر، غلطی بہرحال غلطی ہے۔ جس طرح قانون سے لاعلمی جرم کی نوعیت کو نہیں بدل سکتی، اسی طرح اصول و عقائد کا انکار اور لاعلمی انسان کو اس پاداش سے نہیں بچا سکتی، جو اس انکار پر مرتب ہو گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے انکار کرنے والے سب کے سب بدنیت اور معاند نہ تھے۔
مولانا کے معیار کا نتیجہ:
’’البیان‘‘ صفحہ (22) کا ملخص یہ ہے کہ حدیث سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ مولانا کی سنت مصطلحہ حدیث کے دفاتر ہی سے ملے گی۔ مولانا کا خیال ہے کہ قرآنی ٹارچ کی مدد سے اس کی سراغ رسانی ہو سکتی ہے، ورنہ حدیث کے بغیر اگر قرآن کا مطالعہ براہ راست کیا گیا، تو باپ، بیٹا، بیٹی، داماد، بہو، سب کا دین الگ الگ ایک دوسرے سے جدا ہو گا۔
یقیناً اگر قرآن پر براہ راست غور کیا گیا، تو اس کے نتائج تفرقہ کے سوا کچھ نہیں۔ حضرات اہل قرآن کی نصف صدی کی کوششیں ظاہر ہیں کہ سارے قرآن مجید سے آج تک نماز بھی کشید نہیں ہو سکی۔ اس قدر اختلاف ہوا کہ فقہاء کے فروعی اختلافات کی ان کے سامنے کوئی حقیقت ہی نہیں۔ اب سوال ’’قرآنی ٹارچ‘‘ کا ہے، اس میں روشنی کہاں سے آئے گی؟ سیل (Cell) کہاں سے بنیں گے؟ اگر یہ صرف قرآن سے بنائے گئے، تو اس میں پھر اختلاف اور طوائف الملوکی کا خطرہ ہو گا۔ اگر حدیث سے استفادہ کیا گیا، تو وہ ذخیرہ ظنی ہے۔ ٹارچ کی روشنی سے یقین کیسے پیدا ہو گا؟ اگر مولانا کی سنت مصطلحہ کو اس ضرورت کے لیے استعمال کیا جائے، تو وہ بھی حدیث کے طنی دفاتر ہی
|