فارسی سازش کے متعلق گذارشات میں کسی قدر تفصیل سے عرض کرنا پڑا۔ اس لیے کہ عوام کے ذہن اس تہمت سے متاثر ہیں۔ بعض پڑھے لکھے لوگوں میں بھی اس تہمت کی وجہ سے تذبذب پایا گیا ہے۔ دین کا علم رکھنے والوں اور اپنی تاریخ سے واقف حضرات کے ذہن پر گو اس کا کوئی اثر نہ تھا، رجال اور ان کی تاریخ سے تھوڑے بہت واقف کو بھی اس پر شک نہیں گزرتا، لیکن رنج ضرور ہوتا ہے، کیونکہ یہ ان لوگوں پر تہمت ہے جو دینی علوم کے ستون ہیں۔ دینی اور شرعی علوم کے آسمان ان ہی اقطاب پر گردش کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ سازشی ثابت ہو جائیں تو اسلام کی پوری عمارت زمین بوس ہو جائے گی۔
فرض کیجیے! اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، امام بخاری رحمہ اللہ، امام مسلم بن الحجاج رحمہ اللہ، ابو عیسیٰ الترمذی رحمہ اللہ ایسے بزرگ اسلام کے خلاف سازش کرنے لگیں تو فقہ اور حدیث دونوں مشتبہ اور ناقابل اعتماد قرار پائیں گے۔
پھر اگر یہ سلسلہ اس طرح بڑھتا چلا جائے تو صرف و نحو، معانی، بیان، اصولِ کلام، سارے علوم مشکوک ہو جائیں گے۔ تیرہ سو سال کی محنت جو علماءِ عرب اور عجم سب نے مل کر کی، ساری غارت ہو جائے گی، بلکہ پوری امت کو کم فہم اور عقل فراموش تسلیم کرنا ہو گا، جو ساری عمر اس شر انگیز شرارت کو معلوم نہ کر سکے۔ یہ تو بلادت کی انتہا ہو گی۔
پھر ان ناقلینِ آثار میں شافعی مطلبی رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ، امام ابن حنبل رحمہ اللہ، ابو عبیدہ قاسم بن سلام، ایسے خالص عرب بھی شامل ہیں، نیز ہر دور میں کتاب و سنت اور دینی علوم کی خدمت عرب اور عجم مل کر اپنی بساط کے مطابق کرتے رہے اور کسی کو محسوس نہ ہوا کہ ہم عجمیوں کی سازش کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ امت پر مضحکہ خیز پھبتی ہو گی۔ خصوصاً جب یہ معلوم ہو کہ صدیوں کے بعد چند بے علم یا محدود العلم کلرکوں نے اس سازش کا سراغ لگا لیا۔ دنیا کے دانش مند اکابرِ امت کے اس تساہل پر تعجب کریں گے اور ہنسیں گے، حالانکہ اس میں لاعلمی اور عجائب پسندی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ امید ہے کہ احباب ان مختصر گزارشات پر غور کریں گے۔
تحریک انکارِ حدیث کی رفتار:
مولوی عبداللہ صاحب سے مولوی محمد رمضان اور مولوی حشمت علی صاحب تک اس تحریک
|