جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث
ایک تنقیدی جائزہ
الحمدلله و كفيٰ، و سلام علي عباده الذين اصطفيٰ۔
عرصہ ہوا مولانا مودودی صاحب نے ایک مضمون ’’مسلک اعتدال‘‘ کے عنوان سے لکھا، جس پر عامۃ المسلمین میں مولانا اور ان کی جماعت کے متعلق کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور یہ سلسلہ اخبارات میں کافی دیر تک چلتا رہا کہ حجیتِ حدیث اور سنتِ رسول پر اعتماد کے متعلق جماعت اسلامی کا موقف کیا ہے؟
بحث و نظریہ کا یہ سلسلہ ابھی تھمنے نہیں پایا تھا کہ مولانا مودودی نے جیل سے تشریف لاتے ہی مختلف مقامات پر چند تقریریں فرما دیں۔ نیت کا علم تو اللہ کو ہے، مگر ان تقاریر سے فضا میں تموج اور تیزی آ گئی۔ جماعت اسلامی کے جرائد نے اپنی قیادت کی حمایت میں جرأت اور تہور سے کام لے کر خاصی گرمی پیدا کر دی۔ غالباً ان حالات سے متاثر ہو کر کسی اہل حدیث نے کچھ سوالات کیے، جن کا جواب مولانا اصلاحی کے قلم سے اکتوبر 55ء کے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں شائع ہوا۔ مولانا اصلاحی کے لب و لہجہ میں ممکن ہے کچھ فرق ہو، مقصد کے لحاظ سے مولانا اصلاحی کے نظریات مولانا مودودی سے چنداں مختلف نہیں۔ حدیث کے متعلق دونوں بزرگ قریباً ایک ہی طرح سوچتے ہیں۔
جماعت اہل حدیث کے احساسات کا ایک خاص مقام ہے اور قریباً ایک صدی سے جس نہج پر ان حضرات نے فنِ حدیث اور سنت کی خدمت کی ہے، اس کا یہ لازمی نتیجہ ہے۔ جماعت اسلامی کا طریقِ فکر اس سے مختلف ہے، اس لیے اہل حدیث کا اس سے ناگوار تاثر بالکل قدرتی تھا اور ایک گونہ تصادم اس کا طبعی نتیجہ۔ ان جوابات سے اُس اہل حدیث سائل کی کہاں تک تسکین ہوئی؟ اس کا علم نہیں ہو سکا، لیکن میرے تاثرات یہ ہیں کہ ان جوابات سے نہ کوئی اہل حدیث مطمئن ہو سکتا ہے نہ عامۃ المسلمین، بلکہ خود مجیب بھی شاید مطمئن نہ ہوں۔
|