(1) امام بخاری رحمہ اللہ حسب امکان ابواب میں آیات ذکر فرماتے ہیں، لیکن وہ ہمارے امام سے خوش نہیں!
(2) امام بخاری رحمہ اللہ ائمہ ملت کے تلامذہ سے روایت کرتے ہیں، ان کے مناقب بیان نہیں فرماتے!
غور فرمائیے! اگر بخاری سے یہ شکوہ کیا جائے، تو ائمہ ثلاثہ نے اپنے اساتذہ اور رواۃ کے مناقب میں کون سی کتاب لکھی؟ یہ صرف احساس کمتری ہے، جس کی نسبت حضرت شاہ صاحب کی بجائے کاتب امالی کی طرف زیادہ موزوں معلوم ہوتی ہے۔ فیض الباری کے مطبوعہ نسخہ میں اور بھی بہت سی بے جوڑ چیزیں ہیں، جو شاہ صاحب کے مقام سے موزوں نہیں۔ یہ شکوہ کوئی کرے، کسی وجہ سے ہو، امام کے مسلک کی اس سے وضاحت ہو جاتی ہے اور احساس پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ مسلک صحیح ہے اور اسے دنیا میں رکھنا ضروری ہے، اس کی مخالفت اتنے اونچے مقامات سے اس بے جوڑ اور بھدّے طریق سے ہو رہی ہو، تو آیا اسے تغافل کی نذر کر دیا جائے؟ ملک کی موسمی اور وقتی تحریکات پر اسے قربان کر دیا جائے اور ایسے ستم ظریف حضرات واقعی اس کے اہل ہیں کہ تاریخ کے صفحات میں انہیں کوئی مناسب مقام دیا جائے؟!
میری پاکستان اور ہندوستان کے اہل حدیث علماء اور ہونہار طلباء سے گزارش ہے کہ وہ اپنے موقف کو پہچانیں اور اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں؎
كل امري تحسبين امرأً
و نار توقد بالليل ناراً [1]
معاملات:
اسلام چونکہ زندگی کے تمام گوشوں پر محیط ہے، اس لیے اس نے بیوع، اجارات، شرکت، نکاح اور طلاق کے متعلق مخصوص ہدایات دی ہیں۔ ان ہدایات کا آغاز عبادات میں بہت زیادہ جامع اور محیط ہے۔ وہاں قیاسات کے لیے بہت کم گنجائش دی گئی ہے۔ عبادات کے اوضاع، اطوار اور وظائف میں پوری پابندی فرمائی۔ قیاس، ظن اور تخمین کو مداخلت کا کوئی موقع نہیں دیا۔ ان حدود کی پابندی شرعاً ضروری ہے، جو شارع حکیم نے عبادات کے متعلق فرمائی۔
معاملات کا انداز عبادات سے بالکل مختلف تھا، ان کو حصر کرنا ناممکن تھا۔ ظروف و احوال کی تبدیلی سے معاملات میں تنوع یقینی امر تھا اور تنوع کی صورت میں اس کے حکم کی نوعیت بھی مختلف
|