Maktaba Wahhabi

154 - 676
ارشادات محض تاریخی سرمایہ نہیں، بلکہ واجب التعمیل احکام اور حقیقتِ ناطقہ ہیں۔ ﴿مَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ایک دھوکہ: بعض منکرینِ سنت نے بڑی عنایت فرمائی۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم احادیث کا انکار نہیں کرتے، بلکہ یہ تاریخ کا ایک قیمتی سرمایہ ہے اور مقدس تاریخی دستاویز۔ ﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ۚ﴾ مقامِ نبوت کو سمجھ لینے کے بعد اس کا مطلب انکار نبوت کے سوا کچھ نہیں، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی توہین ہے۔ اس لفظی ملمع سازی کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ابنِ خلدون، ابنِ جریر، ابنِ کثیر اور دیگر مؤرخین کے پس و پیش ہو گا۔ ہر آدمی کو اس پر بحث و تنقید کا حق حاصل ہو گا۔ پیغمبر تاریخی مباحث کا تختہ مشق ہو گا۔ بحث و نظر کی موشگافیاں نبوت کے ماحول پر محیط ہوں گی۔ یہ مقام تمام علماء کا ہے، بلکہ بحیثیت مؤرخ یورپ کے ملاحدہ نے بہترین تاریخی سرمایہ علم کی منڈیوں میں بکھیرا ہے جو اہل نظر کے لیے دعوتِ فکر کا سامان مہیا کر رہا ہے۔ ہمارے یہ دوست (اگر شرم و حیا دنیا سے نابود نہیں ہو گئی تو) غور کریں کہ یہ کون سا مقام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عنایت فرما رہے ہیں؟ ایک شخص اپنے باپ کے متعلق کہتا ہے کہ میں اس کا بیٹا تو نہیں، لیکن ویسے وہ شریف آدمی ہے۔ یورپ کے اکثر بے دین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مقدس انسان سمجھتے ہیں، لیکن پیغمبر نہیں سمجھتے۔ یہ حیثیت حضرات اہل قرآن نے انبیاء کو عنایت فرمائی ہے۔ وہ دیانتاً سوچیں کہ مقامِ نبوت اور عام علم کے مقام میں کیا فرق رہا ۔۔؟ ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ (النور: 63) دراصل ان حضرات نے شکست خوردہ ذہنیت پائی ہے۔ محققین یورپ سے عقیدت مندانہ تعلق نے اسلام اور اس کے عقائد، انبیاء اور ان کے مقام کو ان کی نگاہوں سے اوجھل کر دیا ہے۔ ﴿فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ﴾ بجائے اس کے کہ وہ اس علمی سرمایہ پر فخر کریں جسے صدیوں سے ائمہ امت نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت سے حاصل کیا، یہ حضرات اس میں عار محسوس کرتے ہیں۔ اس پر ایمان سے ان کا دل ندامت محسوس کرتا ہے۔ ﴿بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ
Flag Counter