منشا یہ ہے کہ انسان بچپن سے بڑھاپے تک علم میں مشغول رہے، نیز فرمایا:
’’قد تعلّم أصحاب النبي صلي اللّٰه عليه وسلم في كبر سنهم‘‘
’’صحابہ نے بڑی عمر میں علم سیکھا۔‘‘
علم کی ضرورت، علم کی خوبی اور اس کا شوق ان ارشادات سے ظاہر ہے۔ یہی ایسی نعمت ہے، جس میں ریس اور غبطه [1] کی اجازت فرمائی گئی ہے۔
کتابت:
بعض کم فہم حضرات نے ایک مسئلہ اس انداز سے پھیلایا، جس کا مقصد علم دشمنی کے سوا کچھ نہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو کسی وقت منع فرمایا تھا کہ وہ قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو اکٹھا نہ لکھا کریں۔ (مجمع الزوائد: 1/150) [2]
روایت بالمعنی کے طور پر بعض الفاظ سے کتابتِ حدیث کے متعلق نہی ظاہر ہوتی تھی، لیکن اہل حدیث نے اس نہی کو وقتی سمجھا اور بالآخر اس پر اجماع ہو گیا کہ جس طرح قرآن مجید لکھنا درست ہے، حدیث لکھنا بھی درست ہے۔[3]
آج صدیوں کے بعد منکرین حدیث نے ان روایات کو اس طرح ذکر فرمایا کہ حدیث لکھنا ممنوع
|