علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ کا نظریہ:
اور وہ ہیں آٹھویں صدی کے علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ۔ آپ نے اس مبحث پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے، جسے ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
’’فصل في أن حملة العلم أكثرهم العجم‘‘
’’من الغريب الواقع أن حملة العلم في الملة الإسلامية أكثرهم العجم، وليس في العرب حملة علم، لا في العلوم الشرعية، ولا في العلوم العقلية إلا القليل النادر، وإن كان منهم العربي في نسبه فهو عجمي في لغته، ومرباه و مشيخته، مع أن الملة عربية، و صاحب شريعتها عربي‘‘ [1]
’’یہ عجیب واقعہ ہے کہ اسلام میں علماء کی اکثریت عجمی الاصل ہے۔ عقلی اور نقلی علوم میں عرب اہل علم نادر اور قلیل ہیں۔ اگر کوئی ان میں نسبی عرب ہے، تو وہ شیوخ اور تربیت کے لحاظ سے عجمی ہے، حالانکہ ملت اور صاحب ملت عربی ہیں۔‘‘
ابن خلدون رحمہ اللہ عالم ہے اور فلسفہ تاریخ کا ماہر، وہ نہ اس حقیقت کا انکار کرتا ہے، نہ اس کی توجیہ میں کوئی ایسی بدگمانی پیدا کرتا ہے، جو اسے حقیقت سے دور لے جائے یا سلفِ امت پر بدگمانی پیدا کرے یا امت کی علمی خدمت کی ناشکری کرے۔ وہ حقائق کو حقائق کی سرزمین میں کھڑے ہو کر سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے اسباب عقلی سے بحث کرتا ہے، جس کا ملخص یہ ہے۔ فرماتے ہیں:
’’اس کا سبب یہ ہے کہ ابتداءِ اسلام میں مسلمانوں میں نہ علم تھا نہ صنعت، ان میں اول سے آخر تک بدویت اور سادگی نمایاں تھی۔ شریعت کے اوامر و نواہی کو صاحب شریعت سے سن کر اسے یاد رکھتے تھے اور کتاب و سنت سے اس کے ماخذ کو جانتے تھے۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے یہ سب کچھ سیکھا تھا۔ اس وقت عرب تالیف اور تدوین کے فن سے ناواقف تھے۔ نہ وہ اس کے لیے مجبور تھے اور نہ ہی انہوں نے اب تک اس کی ضرورت کو محسوس کیا تھا۔ صحابہ اور تابعین کا زمانہ اسی طرح گزر گیا۔ ان ایام میں پڑھے لکھے لوگوں کو ’’قاری‘‘ کہتے تھے۔ یہ قاری قرآن اور سنت دونوں کو جانتے تھے۔
|