واقع میں ’’عجمی سازش‘‘ کوئی حقیقت نہیں اور اس سلسلے کے سارے استدلال کی بنیاد چند سلبی اوہام پر ہے، اور معلوم ہے کہ منفی قرائن سے کوئی ایجابی حقیقت ثابت نہیں کی جا سکتی اور عقل و دانش کی دنیا میں زلفوں کی زیبائش کا کام استرے اور بلیڈ سے نہیں لیا جاتا۔
مولوی صاحب کی پوری عمر عدالت کی کرسی پر بسر ہوئی ہے۔ ان کی زندگی کے قیمتی لمحات انگریزی قانون کی خدمت اور مغربی انداز فکر کی نذر ہوئے ہیں، اس لیے سوچنے کا وہی طریق محترم کی طبیعت ثانیہ بن گیا ہے۔
سوال:
سوال جو پیدا کیا گیا ہے، مختصراً صرف اتنا ہے کہ
’’حدیث کی تدوین فارسی الاصل علماء نے کیوں کی اور کتبِ صحاح کے مصنف عرب کیوں نہیں؟‘‘
طلوع اسلام کا ادارہ بے تکلف اس کا جواب عنایت فرما دیتا ہے کہ یہ عجمی سازش کا نتیجہ ہے۔ ہم جواب میں اختصار ہی سے ادباً گزارش کر دیتے ہیں کہ اس عجمی سازش کا سراغ بھی شکر ہے کہ عجمیوں ہی نے لگایا ہے اور بہت ممکن ہے کہ سراغ رسانی بھی کسی عجمی سازش ہی کا اثر ہو۔ ضرورت ہے کہ کچھ اور عجمی مكتشفين کی تلاش کی جائے، شائد اس سازش میں ہی کوئی سازش ہو!
نیا جال:
مگر اس مختصر سے سوال کو مولانا ابراہیم نے ’’طلوع اسلام‘‘ کے چھ صفحات پر پھیلایا ہے۔ [1] عرب کا جغرافیہ بیان فرماتے ہوئے ایک مفروضہ مرتب فرمایا کہ ایرانیوں کو عربوں سے عداوت تھی، جس کی بنا پر انہوں نے عربی علوم کی خدمت کا ذمہ لے لیا۔
تاریخی مغالطہ:
پھر اس عداوت پر فردوسی کے دو شعروں سے استدلال فرمایا، حالانکہ فردوسی کی شاعری کے سوا اس میں کوئی تاریخی حقیقت نہیں۔ فردوسی کا تصور ہی فارس کی فتوحات سے برسوں پہلے کا ہے۔ فارس
|