Maktaba Wahhabi

461 - 676
سے نہیں ہو سکتا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا نسب نامہ متی اور لوقا میں مختلف ہے، بعض جگہ کچھ نام کم بعض میں کچھ زیادہ، اس سے مسیح کی اسرائیلیت مشتبہ نہیں ہو سکتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ نسب میں معد بن عدنان سے آگے تفاوت ہے، لیکن اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت مشتبہ نہیں ہو گی۔ تمنا صاحب کے استدلال کا مفاد تو یہی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو موالی تصور کر لیا جائے۔ العياذ باللّٰه ! کیا موالی سب بددیانت تھے؟ تمنا صاحب کے مضمون سے ذہن میں یہ اثر ہوتا ہے کہ موالی سب انتقامی جذبات سے بھرپور تھے۔ وہ دل سے اسلام کے خیر اندیش نہیں تھے۔ یہ خیال قطعی غلط اور بے معنی ہے۔ موالی میں بے حد مخلص اور اسلام کے سچے خادم موجود تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہ فارسی تھے، امام بخاری بھی فارس کے رہنے والے تھے، اسی طرح اکثر ائمہ حدیث و فقہ فارسی الاصل اور موالی سے تھے۔ اگر عجمی اور موالی پر محض عجمی اور موالی ہونے کی وجہ سے وضع، تخلیق یا بے دینی کی تہمت لگائی جائے، تو تمام علوم غیر محفوظ ہوں گے۔ ابن خلدون نے مقدمہ تاریخ میں ایک مستقل فصل اس موضوع پر لکھی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’یہ عجیب واقعہ ہے کہ دینی اور عقلی علوم کے ماہر اکثر عجمی ہیں۔ اگر کوئی نسبت کے لحاظ سے عرب ہے، تو بھی اسے زبان وغیرہ کے اعتبار سے کہیں نہ کہیں عجمیت کا پیوند لگا ہوا ہے، کیونکہ عرب سادگی کی وجہ سے حضری علوم کو نہیں جانتے تھے۔ دین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر سیکھا۔ اس کے ماخذ کتاب و سنت سے ان کو معلوم تھے۔ تدوین علوم کا اس وقت نہ ان کو احساس ہوا اور نہ اس کی ضرورت سامنے آئی۔ صحابہ اور تابعین کے زمانہ میں عموماً یہی صورت رہی، جن لوگوں نے اس کی طرف تھوڑی بہت توجہ کی، ان کو قاری کہا جاتا تھا، اس کے معنی قرآن اور سنت کی معرفت کے تھے، کیونکہ اس وقت دین کی معرفت کے لیے یہی دونوں ماخذ تھے۔ ہارون رشید کے دورِ حکومت میں تفاسیر اور احادیث کی عام تدوین کی ضرورت محسوس ہوئی، تاکہ زمانہ کے بُعد کی وجہ سے یہ علوم ضائع نہ ہو جائیں، اس لیے اسانید کی بھی
Flag Counter