آیا، اس نے کہا کہ حضرت میں نے اس شرط پر نکاح کیا تھا کہ میں اپنی بیوی کو اس کے گھر سے باہر نہیں لے جاؤں گا۔ اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ فلاں سرزمین میں چلا جاؤں، اور میں سفر کے لیے پوری تیاری کر چکا ہوں، لیکن میری بیوی نے میرے ساتھ جانے سے انکار کر دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’لها ما اشترطت‘‘ اسے اپنی شرط پر قائم رہنے کا حق ہے۔ اس شخص نے کہا: مرد تو اس صورت میں مر گئے! عورت جب چاہے گی (اس شرط کے مطابق) مرد کو طلاق دے دے گی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اَلْمُوْمِنُوْن عَليٰ شُرُوْطِهِمْ‘‘ مومن اپنی شروط کے پابند ہیں۔ ان کے حقوق کا آخری فیصلہ ان شروط ہی کی روشنی میں ہو گا۔ [1]
طلاق:
طلاق کے الفاظ اور مطلّق کی نیت کے متعلق ہمارے معاشرے میں جو گڑبڑ پائی جاتی ہے، اس کی بہت حد تک ذمہ داری فقہاءِ حنفیہ رحمہم اللہ پر ہے۔ شرح وقایہ اور ہدایہ کے طالب علم جانتے ہیں کہ ان کتابوں میں طلاق و عشق کے مباحث کس قدر دقیق اور دقت انگیز ہیں۔ امام رحمہ اللہ نے یہاں بالکل طبعی فطری راہ کی طرف راہنمائی فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں:
’’باب إذا قال: فارقتكِ أو سرّحتكِ أو الخلية أو البرية، أو ما عني به الطلاق فهو عليٰ نيته‘‘ الخ [2]
یعنی الفاظِ طلاق میں مطلّق اور اس وقت کے محاورات ملحوظ ہوں گے۔ اس کا علماءِ خراسان اور فقہاءِ ماوراء النہر کے محاورات سے فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔
اسی طرح حرام کے لفظ سے حضرات موالک تین طلاقیں مراد لیتے تھے۔ [3] امام بخاری رحمہ اللہ نے حسن بصری رحمہ اللہ کا اثر ذکر فرمایا:
|