دوسرا حصہ:
دوسرے حصہ میں مولانا ائمہ حدیث اور ان کی خدمات کی تعریف فرماتے ہیں۔ حدیث کی حفاظت کے ذرائع کو بھی قرآن کی غیر معمولی حفاظت کے ذرائع کی طرح بے نظیر کہتے ہیں۔ اصولِ محدثین کی تعریف فرماتے ہیں، لیکن اس پر بے اطمینانی کا اظہار فرماتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
’’وہ بہرحال تھے تو انسان ہی، انسانی علم کے لیے جو حدیں فطرۃُ اللہ نے مقرر کر رکھی ہیں، ان کے آگے تو وہ نہیں جا سکتے تھے۔ انسانی کاموں میں جو نقص فطری طور پر رہ جاتا ہے اس سے تو ان کے کام محفوظ نہ تھے۔‘‘ (تفہیمات، ص: 318)
اس کے بعد متبعین حدیث پر تنقید فرماتے ہیں:
’’ان (محدثین) کی نگاہ میں احادیث کے معتبر یا غیر معتبر ہونے کا جو معیار ہے ٹھیک ٹھیک اسی معیار کی ہم (اہل حدیث) بھی پابندی کریں، مثلاً مشہور کو شاذ پر، مرفوع کو مرسل پر اور مسلسل کو منقطع پر لازماً ترجیح دیں۔‘‘ (تفہیمات، ص: 318)
بالکل بجا، مگر سوال یہ ہے کہ تواتر کی صورت میں جو یقین کا سرمایہ موجود ہے، وہ بھی تو آخر انسان ہی ہیں، ان کے لیے بھی فطری حدود متعین ہیں۔ اگر تنقید درست ہے تو قرآن اور سنتِ متواترہ کے یقین کو بھی ظن ہی کے مترادف سمجھنا چاہیے۔ گویا انسان کی فطری حدود کے اندر یقین کا وجود ناپید ہے۔ مولانا کے ذاتی خیالات یقیناً یہ نہیں ہوں گے، مگر ان کے استدلال کی انتہا یہی ہے۔ ائمہ حدیث اور ان کی مساعی اور فن حدیث کے متعلق مولانا نے جو کچھ ایک ہاتھ سے دیا تھا، اسے دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیا، بلکہ ان کے نزدیک انسانیت کی لغت میں یقین کا لفظ ایک بے معنی لفظ ہے۔
اصولِ حدیث کے متعلق اہل حدیث اور متبعینِ حدیث کی ترجمانی مولانا نے جس طرح فرمائی ہے، وہ قطعاً غلط ہے۔ ائمہ حدیث اور متبعینِ حدیث نے کبھی یہ دعویٰ نہیں فرمایا کہ یہ اصولِ تنقید آخری ہیں، ان پر اضافہ ناممکن ہے، بلکہ ہماری نظر میں اصولِ حدیث ایک متحرک فن ہے۔ وہ بتدریج اس حد تک پہنچا جہاں وہ آج موجود ہے۔ اگر کسی معقول اصل کا اس میں اضافہ فرمایا جائے تو فن میں اس کی گنجائش ہے۔ البتہ یہ شکایت بجا ہے کہ آج تک اس میں جو اضافہ کی کوشش کی گئی، اس کی بنیادیں از بس کمزور ہیں اور اسے اصول کی حیثیت سے قبول کرنا سخت مشکل ہے۔ ان میں تعمیر کی بجائے تخریب
|