اہلِ حدیث کا مسلک:
اہلِ حدیث کے نزدیک خبرِ واحد میں جب صدق کے قرائن پائے جائیں، یعنی حدیث کی ثقاہت اور اتصال وغیرہ قرائن موجود ہوں تو وہ مفیدِ علم ہو گی:
’’وعند بعض أهل الحديث يوجب العلم لأنه يوجب العمل، ولا عمل إلا عن علم‘‘ (تلويح، ص: 304)
عمل علم کی فرع ہے، جب علم ہی نہ ہو تو عمل کیسے ہو گا؟ اس لیے اہل حدیث کا مذہب ہے کہ خبرِ واحد سے علم اور یقین حاصل ہو گا۔ آمدی فرماتے ہیں:
’’والمختار حصول العلم بخبره إذا احتفت به القرائن، و يمتنع ذلك عادة دون القرائن‘‘ (الإحكام للآمدي: 2/50)
’’مختار مذہب یہی ہے کہ اگر قرائن موجود ہوں تو علم حاصل ہو گا ورنہ عادتاً منع ہے۔‘‘
اصول بزدوی (2/691) میں ہے:
’’قال بعض أهل الحديث: يوجب علم اليقين لما ذكرنا أنه أوجب العمل، ولا عمل من غير علم، وقد ورد الآحاد في أحكام الآخرة، مثل عذاب القبر و رؤية اللّٰه تعاليٰ بالأبصار ولا حظ لذلك إلا العلم‘‘
’’بعض اہل حدیث نے کہا ہے کہ خبرِ واحد سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے، کیونکہ جب عمل واجب ہو تو عمل علم کے بغیر کیسے ممکن ہو سکتا ہے اور آحاد میں عذابِ آخرت اور عذابِ قبر اور رؤیتِ باری تعالیٰ کے متعلق جو کچھ وارد ہوا ہے، اس کا مقصد علم اور اعتقاد ہی تو ہے۔‘‘
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اعمال میں تو خبرِ واحد سے استدلال درست ہے، مگر اصول و عقائد میں استدلال درست نہیں۔ اہلِ حدیث اعمال اور عقائد دونوں میں خبرِ واحد کو حجت سمجھتے ہیں:
’’ذهب أكثر أهل الحديث إلي أن الأخبار التي حكم أهل الصنعة بصحتها توجب علم اليقين بطريق الضرورة، وهو مذهب أحمد بن حنبل‘‘ (كشف الأسرار: 2/691)
’’اہلِ حدیث اور امام احمد کا مذہب ہے کہ صحیح احادیث سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے۔‘‘
|