Maktaba Wahhabi

562 - 676
اس زمانہ کی چوریاں آج تلاش کی جائیں، اس زمانہ کو آج کے اوہام کی عینک سے دیکھا جائے اور آج کے فیصلے ان حوادث پر ناطق تصور کیے جائیں۔ اس وقت کی سچائیوں کو آج کے جھوٹوں اور ان کے اسباب و دواعی کی روشنی میں دیکھا جائے، یہ مضحکہ ہو گا۔ دماغی توازن کی خرابی کا کرشمہ ہو گا اور دانشمندی کے بالکل خلاف! ’’خير القرون‘‘ کا مفہوم: مخاطب محترم نے خیر القرون کے طول، عرض اور انقباض پر بھی بحث فرمائی ہے اور اپنی نکتہ آفرینی کا ثبوت دیا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’اول صاحبِ قرن آنحضرت ہیں، ان کی وفات پر پہلا قرن ختم ہوا۔ دوسرے صاحبِ قرن حضرت ابوبکر ہیں اور تیسرے صاحب قرن حضرت عمر، دونوں کے انتقال پر تین قرن ختم ہوئے۔‘‘ نکتہ تو خوب ہے، لیکن افسوس ہے کہ ہوائی نکتہ سے اس کی اہمیت زیادہ نہیں۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ((خَيْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِي ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ)) [1](نسائي) ((الَّذِينَ)) اور ((يَلُونَهُمْ)) میں موصول اور ضمیر جمع ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ صاحبِ قرن ایک جماعت ہے اور ان سے ملنے والے بھی ایک جماعت۔ اس سے یہ نکتہ کچھ کامیاب معلوم نہیں ہوتا۔ مجھے اس سے بحث نہیں کہ قرن کو کہاں تک پھیلنا یا سمٹنا ہے؟ لیکن مجھے خود پسند ہے کہ اس پر کچھ انضباط اور کنٹرول ہو جائے۔ مولانا کی توجہ غالباً خلافت راشدہ کی طرف تھی کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک ختم ہو گئی اور یہ مناسب بھی ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے حدیثِ خلافت اور حدیثِ قرون میں خبط سا ہو گیا ہے۔ کتابت اور تدوین حدیث کی جو صورت اس وقت ہمارے سامنے ہے، اسے اگر کوئی قبول نہیں کرنا چاہتا، تو اس کی خوشی ہے، لیکن جن شبہات کی بنا پر انکار کیا جا رہا ہے، ان کی کوئی اہمیت نہیں۔
Flag Counter