Maktaba Wahhabi

567 - 676
اعترافِ حقیقت: یہ واقعی ایک حقیقت ہے کہ نقل کے لحاظ سے حدیث کو وہ وثوق و تواتر میسر نہیں آ سکا، جو قرآن مجید میں پایا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ائمہ حدیث اور اہل سنت کے نزدیک حدیث کا درجہ قرآن کے بعد ہے۔ اس حیثیت سے حدیث نہ ’’مثله‘‘ ہے، نہ ’’معه‘‘۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے دوست حدیث کے خلاف لکھتے وقت جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں اور فرقِ حیثیت کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ عفا اللّٰه عنا و عنهم و هدانا و إياهم سواء الطريق یہی سبب ہے جس کی وجہ سے حدیث کو ظنی کہنے کا رواج ہوا۔ ظن اور اس کا مقام: ظن عرفاً یقین سے کچھ کم ہے۔ منطقی اسے شک سے کسی قدر بہتر سمجھتے ہیں۔ میں نے رسالہ ’’اسلامی زندگی‘‘ میں مفصل عرض کیا تھا۔ برادر محترم اپنی تصنیفات کے تعارف میں مشغول ہو گئے اور میری گزارشات پر مناسب توجہ نہ دے سکے، حالانکہ بہت سی دشواریوں کا حل ان گزارشات میں موجود تھا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ محدثین کا مطلب حدیث کی ظنیت سے ایک ایسا ذخیرہ مراد ہے، جس میں فکر و نظر اور قرائن و ادلہ سے بحث کی گنجائش ہے۔ قرائن اور دلائل اگر کسی حدیث کی صحت کا فیصلہ کر دیں، تو وہاں شکوک و شبہات اور ظنون کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ ان دلائل کی بنا پر صحیحین کی احادیث کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان سے علم و یقین حاصل ہوتا ہے: ’’و اختار ابن الصلاح أن ما أخرجه الشيخان في صحيحهما أو رواه أحدهما، مقطوع بصحته، والعلم اليقيني النظري واقع به ۔۔الخ‘‘ (حواشي اختصار علوم الحديث: 24) [1] ’’ابن صلاح کے نزدیک صحیحین کی احادیث کی صحت قطعی ہے اور ان سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے۔‘‘ ’’قال الحافظ أبو نصر السجزي: أجمع الفقهاء وغيرهم أن رجلا لو حلف بالطلاق أن جميع ما في البخاري صحيح، قاله رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم، لا
Flag Counter