تحکیم:
تحکیم بھی قضا کے قریب قریب ہے۔ اس میں بھی اس طرح ظنیت موجود ہے۔ اگر حاجی کسی جانور کا شکار کر گزرے تو اس کے عوض اس طرح کا جانور دینے کے لیے فرمایا گیا ہے:
﴿يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ﴾ (المائدة: 95)
’’ہدی کی مثلیت کا فیصلہ دو عادل آدمی کریں گے۔‘‘
یہ حکم یقیناً ظنی ہے: آیا یہ جانور بالکل شکار کی مثل ہے یا نہیں؟
خاوند اور بیوی کے باہم تنازعات کے متعلق فرمایا گیا:
﴿فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللّٰه بَيْنَهُمَا﴾ (النساء: 35)
’’میاں بیوی دونوں فریق کی طرف سے ایک ایک حکم مقرر کر دیا جائے۔ اگر اصلاح کا ارادہ ہو گا اللہ تعالیٰ اس کی توفیق مرحمت فرمائے گا۔‘‘
’’إِنْ‘‘ شرطیہ سے اس تحکیم کی ظنیت ظاہر فرما دی گئی ہے اور ان مقامات میں تحکیم کا حکم قرآن عزیز نے شرعاً دیا ہے۔ عمومی مصالح و مفاسد ظن پر مبنی ہیں۔ معلوم نہیں منکرین حدیث کے کان میں کس نے کہہ دیا کہ ظن شرعاً مستند نہیں؟
اب ہم حافظ عز الدین عبدالعزیز بن عبدالسلام (660ھ) کی شہادت پر اس بحث کو ختم کرتے ہیں۔ شیخ فرماتے ہیں:
’’فصل في بيان جلب مصالح الدارين ودرء مفاسدهما علي الظنون، الاعتماد في جلب معظم مصالح الدارين ودرء مفاسدهما عليٰ ما يظهر في الظنون، وللدارين مصالح إذا فاتت فسد أمرهما، ومفاسد إذا تحققت هلك أهلهما، و تحصيل معظم هذه المصالح بتعاطي أسبابها مظنون غير مقطوع به، فإن عمّال الآخرة لا يقطعون بحسن الخاتمة، وإنما يعملون بناءاً عليٰ حسن الظنون، وهم مع ذلك يخافون أن لا يقبل منهم ما يعملون، وقد جاء التنزيل بذلك في قوله: ﴿وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ
|