Maktaba Wahhabi

446 - 676
اگر شاذ و نادر ان میں نسباً کوئی عربی ہے، تو لغت، تربیت اور شیوخ کے لحاظ سے وہ بھی عجمی ہے، حالانکہ دین عربی ہے اور صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم بھی عرب ہیں۔‘‘ ابن خلدون فرماتے ہیں کہ ملت اسلامیہ میں ابتداءً صنعت اور حرفت نہ تھی۔ اس وقت کی سادگی اور بدویت کا یہی تقاضا تھا۔ شرعی احکام اور اوامر و نواہی کو لوگ حفظ کرتے تھے اور کتاب و سنت سے اس کے ماخذ کو جانتے تھے، کیونکہ انہوں نے اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے روبرو سنا اور سمجھا تھا۔ یہ لوگ عرب تھے۔ تعلیم، تصنیف و تالیف اور تدوین علوم سے یہ قطعی ناواقف تھے اور ان ظروف و احوال میں ان کو اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔ یہ حالت صحابہ اور تابعین کے زمانہ تک جاری رہی۔ نقل کا زمانہ: جب نقل کا زمانہ دور ہوتا گیا، تو علوم کو مقید اور محفوظ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ یہ تقریباً 193ھ میں خلیفہ ہارون الرشید کے انتقال کا زمانہ ہے، اس کے بعد تفاسیر کی تصنیف، دواوین سنت کی تدوین شروع ہوئی، تاکہ یہ منقول سرمایہ ضائع نہ ہو جائے۔ اس کے ساتھ اسانید کی پہچان، علم جرح و تعدیل کی بنیاد رکھی گئی، تاکہ اس منقول سرمایہ کی صحت اور سقم کو پرکھا جائے۔ جب نئے نئے واقعات رونما ہوئے، تو استخراج احکام اور ان کے لیے اصول اور قواعد کی تشکیل ضروری سمجھی گئی، تاکہ کتاب و سنت کے ساتھ ان فقہیات کا تعلق قائم رہے۔ عجمی اختلاط کی وجہ سے زبان بگڑنے لگی، تو علم نحو ایجاد کیا گیا۔ فسادِ عقائد کی اصلاح کے لیے علم کلام کی تدوین ہوئی اور یہ علوم بتدریج ارتقائی منازل طے کرتے رہے اور مزید علوم آلیہ کی ضرورت بڑھتی گئی۔ اس طرح ان علوم نے صنعت کی اور ملکہ کی صورت اختیار کر لی اور صرف سماع اور نقل کے بجائے یہ علوم فن اور صنعت قرار پائے اور معلوم ہے کہ یہ ساری چیزیں حضریت کے لوازم سے ہیں۔ بدویت اور سادگی ان تکلفات کی متحمل نہیں اور عربوں کا مزاج ان تکلفات سے طبعاً دور تھا۔ ان ایام میں حضریت موالی اور عجمیوں کے حصے میں آئی اور اس وقت کی شہریت رسوم اور عادات میں عجمیوں کی غلام اور دست نگر تھی اور صنعت و حرفت میں وہ انہی کے تابع تھے۔ فارسی حکومت ہی سے ان میں حضریت اور شہریت کی عادات راسخ تھیں، چنانچہ ائمہ نحو سیبویہ، ابو علی فارسی اور زجاج تمام کے تمام نسباً عجمی تھی۔ ان لوگوں نے عربی زبان عربوں سے سیکھی، لیکن اس کے قواعد
Flag Counter