ہے، لیکن حقائق سے اس وہم پرستی کی تائید نہیں ہو سکتی، مگر آپ لوگ ہیں کہ ان اوہام کا شکار ہیں۔ ﴿إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ﴾ (الحجرات: 12)
عباسی حکومت کے مختلف دور:
عباسی حکومت کے عروج و زوال کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
(1) ابو العباس سفاح سے ہارون رشید تک۔
(2) مامون رشید سے متوکل تک۔
(3) متوکل سے مستعصم تک۔
ہارون الرشید نے زبیدہ کی منشا کے مطابق امین کو اپنا جانشین بنایا، مگر مامون نے بہت جلد اس کی جگہ سنبھالی اور امین موت کی آغوش میں چلا گیا۔ اس وقت تک عباسی درباروں میں عجمی عناصر کا کوئی علمی مقام نہیں۔ رعایا میں عجمی عناصر کا کوئی علمی مقام نہیں۔ رعایا میں عجمی عناصر خلیفہ ثانی سے آ رہا تھا، لیکن ان کو سیاسی اہمیت حاصل نہ تھی۔
گزارش یہ ہے کہ پہلا دور یعنی ابو العباس سفاح سے ہارون تک، یہ خدمت حدیث کا دور ہے، یہ عباسی دربار کا عربی دور ہے۔ مامون سے واثق تک اگر عجمی دور کہا جائے، تو یہ ائمہ حدیث کے لیے ابتلاء کا زمانہ تھا۔ بعض محدثین امام احمد کی طرح اسی ابتلاء کے میدان میں آ گئے اور بعض پچھلی صفوں میں چلے گئے۔ اس وقت ائمہ حدیث مصائب میں مبتلا تھے۔ سازش کہاں ہوئی؟ کس سے ہوئی؟ کیا یہ سازش ان دشمنوں سے ہوئی جو ان حضرات کو دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے؟
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ان دوستوں سے جو اصابتِ فکر سلب کر لی گئی ہے، تو یہ انکار حدیث کی سزا ہے۔ سوچتے نہیں کہ متوکل سے مستعصم تک عباسی حکومت کا دور انحطاط ہے، حکومت کا اخلاق بگڑ چکا تھا، بے دینی کے رجحانات روز بروز ابھر رہے تھے، اس وقت کسی سازش کا کون سا امکان تھا؟ پھر متوکل نے مامون، مستعصم اور واثق کی بد اعتدالیوں کی تلافی کے لیے امام احمد رحمہ اللہ سے بظاہر مراسم پیدا کیے، مگر یہ مراسم محض سیاسی اور سطحی تھے، ان میں خدمتِ دین کا جذبہ نہیں تھا۔ اس لیے امام احمد رحمہ اللہ اس سے قطعاً متاثر نہیں ہوئے، بلکہ سابقہ تنفر بدستور قائم رہا، چنانچہ وہ متوکل کے ہاں سے کھانا تک پسند نہیں فرماتے تھے۔ [1]
|