Maktaba Wahhabi

557 - 676
پیغمبر کہنا بجا ہو گا، ان کی محققانہ کوششیں کس سے مخفی ہیں اور ان کے حشر سے کون نا واقف ہے؟ کبھی ان دلائل نے زمین کو چپٹا کر دیا، کبھی گول۔ کبھی آسمان حرکت کرنے لگا، کبھی زمین چکرانے لگی، کبھی اس گردش کا وظیفہ سیاروں کے سپرد کیا گیا۔ طبیعات اور فلکیات میں ان کے نظریوں کی تبدیلیاں ہمارے سامنے ہیں، الٰہیات میں اپنی بے بسی کے وہ خود بھی معترف ہیں۔ دراصل یہ عقل اور اس کی نارسائیوں ہی کی داستان ہے، جس کی حمایت میں ہم انبیاء اور ان کی تعلیمات سے دست بگریباں ہوتے رہے۔ یقین کی پیدائش کے لیے یہی مشین تھی، جس کی صنعتی کار گزاریاں ہمیشہ ناکامی سے ہمکنار ہوتی رہیں۔ اب خبر واحد میں یقین پیدا کرنے کے لیے کون سا آلہ ایجاد کیا جائے گا، جس کے انتظار میں ہم ظن سے دست کش ہو جائیں؟ دنیا کے حوادث میں یہی حواس کارفرما ہیں اور دین کی نصوص بھی ان کی کار فرمائی سے گریز نہیں کر سکتیں، تو پھر ہم ظن کی گرفت سے کیونکہ نکل سکتے ہیں؟ ﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰه نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 256) خالق قضا و قدر نے ہمیں اسی قدر تکلیف دی ہے، جس قدر کہ ہم طاقت رکھ سکتے ہیں، اس لیے ظن سے بچنے کے لیے دین اور دنیا میں تمیز بے کار ہے۔ ظن سے گھبراہٹ: ظن اور یقین دو فطری اثر ہیں، جو انسانی طبیعت میں ظاہر ہوتے اور اپنے اپنے وقت پر حسب حال انسان ان سے متاثر ہوتا ہے، لیکن بعض سے عقیدت اور بعض سے گھبراہٹ میں مبالغہ اور غلو، یہ یونانی اصطلاحات کا اثر ہے۔ اصول فقہ کی تشکیل میں متکلمین اور معتزلہ کافی حد تک دخیل ہیں، اس لیے علماءِ اصول بھی ان مبالغہ آمیزیوں سے کافی حد تک متاثر ہیں۔ کعبی اور ابو الحسن متواتر سے جو علم حاصل ہو، اسے بھی نظری اور اسےدلالی سمجھتے ہیں۔ آمدی اور مرتضیٰ اس میں توقف فرماتے ہیں۔ بعض نظار کا خیال ہے کہ متواتر سے بھی یقین حاصل نہیں ہو سکتا۔ براہمہ سرے سے خبر کی افادی حیثیت ہی کے منکر ہیں۔ [1] اس کے باوجود ان کے اعمال پر اس کا کوئی اثر نہیں۔ وہ بدستور اپنی کاروباری زندگی میں ان خبروں پر اعتماد کرتے ہیں۔
Flag Counter