﴿لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ﴾‘‘ (القول المأمول في علم الأصول، ص: 48)
’’امام احمد اور شیخ داود ظاہری اور عام اہلحدیث کا مسلک یہ ہے کہ جب کوئی حدیث اہل فن کی شرائط کے مطابق صحیح ہو جائے، تو اس سے علم و یقین کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس کے اتباع کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ شرعاً ظن کی پیروی ممنوع ہے۔‘‘
مولانا عمادی نے اپنے مقالہ میں فرمایا ہے کہ میں نے ظن کا جو مفہوم ذکر کیا، اس کے لیے کتبِ فن سے حوالہ نہیں دیا۔ بدیہاتِ فن اور اساسی چیزوں کے لیے عموماً مناظرانہ حوالوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب محدثین خبرِ واحد کو ظنی فرماتے ہیں، پھر شرائطِ فن کی موجودگی کے بعد اس پر عمل کو واجب فرماتے ہیں اور اسے علم و یقین کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں، اس کا مطلب واضح ہے کہ یہ ذخیرہ بحیثیت مجموعی ظنی ہے۔ تحقیق و بحث اور شرائطِ فن کی موافقت کے بعد جو احادیث صحیح ثابت ہو گی، وہ ظنی نہیں ہوں گی۔ اوپر کا حوالہ القول المأمول، إرشاد الفحول إلي تحقيق الحق من علم الأصول، كشف الأسرار للشيخ عبدالعزيز أحمد البخاري شرح أصول البزدوي اور كتاب التحقيق للحسامي کی طرف توجہ فرمائیں۔ [1]
ظن کو متعارف معنی میں لینے کے بعد ائمہ حدیث کے لیے تو علمی دنیا میں کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ وہ ایسے ظنون و اوہام کی پیروی ممنوع سمجھتے ہیں۔ حدیث کے ظنی ہونے کا یقیناً وہی مطلب ہے، جو میں نے عرض کیا۔ گزارشات خلاف امید طویل ہو رہی ہیں، اس لیے نصوصات و حوالہ جات کا ذکر نہیں کیا۔ مولانا ایسے صاحب بصیرت اور مخلص حضرات کے لیے نصوصِ کتاب اللہ کے بعد مزید حوالوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟
کتابت اور تدوین حدیث:
اس موضوع کو مخالفین حدیث نے بہت پھیلایا ہے۔ بعض نے مذاق سے اور بعض نے درد مندی سے فن حدیث پر بحث فرمائی ہے۔ اس وضاحت کے بعد کہ حدیث کا درجہ بلحاظ نقل قرآن کے بعد ہے، یہ بحث بے جان سی معلوم ہوتی ہے۔ حضری پراپیگنڈہ کے سوا اس میں کچھ بھی نہیں۔ یہ معلوم
|