Maktaba Wahhabi

173 - 676
کو حجت سمجھتے رہے، بلکہ ابتدائی دور کے محدثین نے انفراداً بعض احادیث پر ان کے مضامین کے لحاظ سے اعتراض کیا، لیکن نہ ان کے مقام کا انکار کیا اور نہ حدیث کی حجیت ہی پر کوئی شبہ کیا۔ ائمہ حدیث کی طرف سے ان انفرادی اعتراضات کا بھی مناسب اور حتمی جواب دیا گیا۔ حافظ ابن قتیبہ دینوری کی کتاب ’’تأويل مختلف الحديث في الرد علي أعداء أهل الحديث‘‘ ایسی قیمتی کتاب اسی موضوع پر ہے، اور حافظ طحاوی کی ’’مشکل الآثار‘‘ بھی اسی مقصد کے لیے لکھی گئی اور انفرادی شبہات کا کافی حد تک ازالہ کر دیا گیا، مگر اس دور میں فنِ حدیث کی مجموعی حیثیت پر اعتراض کا حوصلہ کسی کو نہیں ہوا۔ زمخشری ایسے بالغ النظر لغوی اور ادیب نے اعتزال آمیز آزادی کے باوجود احادیث کا ذکر کیا اور اکثر معجزات کو تسلیم کیا جن کو خود ائمہ حدیث قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے، بلکہ ائمہ حدیث کو قاضی بیضاوی اور زمخشری کی احادیث کے لیے تخریج کی ضرورت محسوس ہوئی، تاکہ یہ غیر مستند ذخیرہ صحیح احادیث کی اہمیت پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ جہل بالقرآن اور انکارِ حدیث: حدیث کی حجیت کا انکار زمانہ جہل کی پیداوار ہے۔ انکارِ حدیث کی ابتداء ان لیڈر منش علماء کی طرف سے ہوئی جو انگریزی تعلیم اور انگریزی بہادر کی پیداوار ہیں۔ مولوی عبداللہ چکڑالوی کے علاوہ یہ تمام حضرات عموماً اسلامی علوم کو انسائیکلو پیڈیا سے حاصل کرنے کے عادی ہیں۔ یہ قرآن کی تاریخ اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو مسٹر نکلسن سے سیکھنا انتہائی تحقیقات تصور کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت ایسی ہے جنہوں نے اسلامی علوم کو اسلامی ماخذ سے حاصل نہیں کیا، بلکہ اسلامی علوم کو یورپین مستشرقین اور انگریزی زبان کے توسط سے سیکھا ہے۔ ترجمہ قرآن عزیز میں جن حضرات کا مدار مسٹر ولیم میور پر ہے، اگر وہ حدیث کا انکار کریں تو انہیں کون روکے اور کیونکر؟ مدیر طلوع اسلام، علامہ عنایت اللہ مشرقی اور مولوی احمد دین امرتسری، یہ تمام علامہ صاحبان انگریز بہادر کی پیداوار ہیں اور ان کی معلومات میں انگریزی طریقِ فکر کار فرما ہے۔ ﴿ جُندٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ مِّنَ الْأَحْزَابِ ﴾ (ص: 11) مولوی عبداللہ بچارے ضرور قدیم وضع کے تھے، تاہم اسلامی علوم کی تکمیل کا موقع ان کو بھی میسر نہ آ سکا، نیز کچھ برتری کا شوق بھی ان کو دامن گیر تھا جو حالات کی نامساعدت کے سبب پورا نہ ہو سکا۔ شیخ محمد چٹو صاحب کی تاجرانہ ذہنیت نے مولوی عبداللہ کو حسبِ منشا کام کا موقع ہی نہ دیا۔
Flag Counter