Maktaba Wahhabi

640 - 676
دوسرا دور: قرآن عزیز کی تفسیر اور احادیث کی عملی تشریحات کے لیے صحابہ کے فتوے یعنی موقوف روایات اور مراسیل کو بھی جمع کیا گیا ہے۔ موطا مالک اور مصنف ابن ابی شیبہ کے انداز کی کتابیں تصنیف ہوئیں، مگر ان موقوفات کو بھی کبھی احادیث کا ہم پایہ نہیں سمجھا گیا۔ انہیں شخصی آراء کی حیثیت دی گئی۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ’’نحن رجال وهم رجال‘‘[1]فرما کر موقوف روایات کی قیمت کو واضح کر دیا۔ امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے: ’’كيف أتبع رجالا لو عاصرتهم لجادلتهم‘‘ ’’میں ان لوگوں کی اتباع کیسے کروں، اگر میں اس وقت موجود ہوتا تو ان سے بحث کرتا۔‘‘ اس مواد سے صرف اس دور کا اندازِ فکر معلوم ہوتا ہے، طریقہ استدلال کا پتہ چلتا ہے۔ آج بھی موقوف اور علماء کے فتوؤں سے اسی حد تک استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ودونه خرط القتاد! [2] تیسرا دور: اس دور میں حدیث کے تمام اقسام صحیح، حسن، ضعیف، مرسل کو جمع کر دیا اور تحقیق کے لیے طالب علم کو کھلا چھوڑ دیا گیا۔ جسے مستند سمجھے، اس سے استدلال کرے۔ جو تحقیق کے خلاف ہو، اسے نظر انداز کر دے۔ سیوطی، دیلمی، ابن عدی، طبرانی وغیرہ نے اور بھی اندھیر کر دیا کہ موضوع اور مختلق ذخائر کو جمع کر دیا۔ بعض کتابوں میں ان پر اجمالی کلام کا بھی احساس نہیں فرمایا۔ اس سے اتنا فائدہ ہوا کہ وضاع بھی مل گئے اور ان کے کرتوت سے بھی آگاہی ہو گئی۔ چور بھی ملا، چوری بھی برآمد ہو گئی، لیکن یہ فائدہ اہل علم اور رجال سے متعارف لوگوں کو ہوا، عوام کے لیے یہ قطعاً غیر مفید ثابت ہوا۔ بریلوی اور شیعہ حضرات کا سارا کاروبار اسی عظیم ذخیرہ سے چلتا رہا۔ امام محمد بن اسماعیل البخاری: سیوطی رحمہ اللہ تو بہت بعد کے ہیں، امام بخاری سے پہلے جرح و تنقید کا رواج ائمہ حدیث میں موجود تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ خود ائمہ جرح و تعدیل میں سے ہیں۔ اپنے استاد اسحاق بن راہویہ کے
Flag Counter