Maktaba Wahhabi

223 - 676
محدثین کی توجہ اس طرف ہوئی۔ [1] امام ابن شہاب زہری نے علم کے سمندر بہا دیے، ہزاروں تشنگان علم کو سیراب فرمایا۔ [2] عمر بن عبدالعزیز ایسے متقی خلفاء ان ائمہ کی سرپرستی فرماتے رہے، [3] اس لیے یہ دورِ تدوین جاری رہا۔ امام بخاری، امام مسلم، امام ابو داود، امام نسائی، امام ترمذی رحمہم اللہ نے علم کے خزانے علم کی منڈیوں میں انڈیل دیے۔ ان کتابوں کا تنوع ائمہ حدیث کی افتاد طبیعت کا پتہ دیتا ہے۔ کہیں جرح و تعدیل کی طرف توجہ ہے، کہیں مذاہبِ فقہاء کا تذکرہ ہے، کہیں تطبیق احادیث پر زور ہے، کہیں فقہ الحدیث، تبویب مضامین سے حق خدمت ادا فرمایا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اگر یہ علم شرعاً حجت نہیں، بلکہ عام تاریخ سے اس کا مقام بلند نہیں، تو پوری امت کا رخ اس طرف کیوں پھر گیا؟ کئی صدیاں اس کے حفظ و ضبط میں بسر ہو گئیں۔ تاریخی ذخائر اور ان کی خدمت کی راہیں اہل علم سے مخفی نہیں۔ بیسیوں نئے علم اس کی خدمت کے لیے ایجاد فرمائے۔ خدمتِ حدیث کے دیگر طریقے: یہاں تک حفظ و ضبط کا تذکرہ تھا، جو مختصراً عرض کر دیا گیا۔ امت نے اس فن کی خدمت اور بھی کئی طریقوں سے کی ہے۔ علامہ زمخشری نے لغتِ حدیث میں ’’الفائق‘‘ لکھی۔ حافظ ابن الاثیر جزری نے ’’نهاية‘‘ کے نام سے ایک مبسوط کتاب لغتِ حدیث میں لکھی، جو مصر سے کئی بار شائع ہو چکی ہے۔ ہمارے ہندوستان کے مایہ ناز عالم اور محدث شیخ محمد طاہر پٹنوی نے ’’مجمع بحار الأنوار‘‘ لکھی، جس میں ’’نهايه‘‘ اور اس سے پہلی کتابوں کو نظر میں رکھا اور مزید اضافہ فرمایا۔ اور اس آخری دور میں مولانا وقار الملک نواب وحید الزمان مغفور نے ’’وحيد اللغات‘‘ کے نام سے کئی جلدوں میں مبسوط لغتِ حدیث لکھی۔
Flag Counter