Maktaba Wahhabi

610 - 676
پچھلے دنوں مولانا ابو الاعلیٰ صاحب نے بھی اس درایت موضوعہ کا ’’مسلک اعتدال‘‘ وغیرہ میں بے حد وظیفہ کیا اور اس تحریک کی روشنی میں بہت سے کم علم، سادہ لوح حضرات بعض صحیح احادیث کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ ہم اہلحدیث ان تُک بندیوں اور تخمینوں کو روایات اور احادیث صحیحہ کی تنقید میں قطعی کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ درایت کا صحیح مفہوم: اصطلاحاً درایت کا صحیح مفہوم ائمہ سنت سے اس طرح منقول ہے: ’’العلم بدراية الحديث: وهو علم باحث عن المعني المفهوم من ألفاظ الحديث، وعن المراد منها، مبنيّا عليٰ قواعد العربية و ضوابط الشريعة و مطابقاً لأحوال النبي صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ (كشف الظنون كاتب چلپي، ص: 323، أيضاً: أبجد العلوم، ص: 436) ’’درایتِ حدیث اس علم کا نام ہے، جو حدیث کے مفہوم پر عربیت اور ضوابط شرعیہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کی روشنی میں بحث کرتا ہے۔‘‘ متقدمین ائمہ بھی درایت کا یہی مفہوم سمجھتے تھے۔ اگر ہر عقل کو درایت کی سند دے کر احادیث پر محاکمہ یا تنقید شروع کر دی جائے، تو علوم کا حلیہ بگاڑ دیا جائے گا اور امام اٹھ جائے گی۔ کوئی فن بھی جہلاء کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ عمادی صاحب کا مضمون آپ کے سامنے ہے اور حضرات اہل قرآن کی تمام مساعی جو قرآن و سنت کی تخریب میں وہ فرما رہے ہیں، یہ جہل مرکب کی زندہ مثال ہے۔ ﴿وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا﴾ (الکہف: 104) اللہ تعالیٰ ان حضرات کی رہنمائی فرمائے۔ ان حضرات کی نظر میں درایت کا یہ مفہوم ہے کہ ہر آدمی جسے تھوڑا بہت علم ہو، اردو تراجم پڑھ سکتا ہو، عربی کے مبادی سے واقف ہو، وہ قرآن و سنت پر طبع آزمائی شروع کر دے اور اپنی ربوبیت کے نظام کی منادی شروع کر دے!
Flag Counter