فقہ راوی کی زد سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جیسے اکابر صحابہ بھی نہیں بچ سکے، بلکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تو بہت زیادہ تختہ مشق رہے۔ [1] ان ہی حضرات سے سن کر روافض اور منکرین حدیث نے پاکباز صحابہ پر طعن و تشنیع کرنا شروع کر دیا اور عجیب یہ ہے کہ فقہ کا ان حضرات کے ہاں کوئی پیمانہ نہیں کہ کتنی فقہ ان حضرات کو نقل روایت میں مطمئن کر سکتی ہے؟ فقہ سے محروم تو صحابہ میں سے کوئی نہ تھا۔ جب کوئی پیمانہ معین نہ ہو، اس قسم کی جرح مذاق بن کر رہ جائے گی۔ یقین ہے کہ یہ حضرات ارادتاً صحابہ کی بے ادبی کرنا نہیں چاہتے، لیکن عیسیٰ بن ابان اور امام سرخسی سے لے کر بزدوی اور ملا جیون تک تمام اصاغر و اکابر یہ وظیفہ کریں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہیں، تو عزت کیا رہی؟ غالباً یہ تاثر روافض اور معتزلہ سے لیا گیا ہے۔ دوسرے ائمہ بھی مجتہد اور فقیہ ہیں، لیکن کسی کو صحابہ پر اس طرح حرف گیری کی جرأت نہیں ہوئی، یہ جامد تقلید کے مصائب ہیں۔
عشق زینہا بیش کر دست کند
فقہ راوی کا اثر:
متقدمین نے یہ شرط روایت بالمعنی کے خطرات سے بچنے کے لیے لگائی تھی، حالانکہ روایت بالمعنی کا رواج صحابہ میں عام تھا۔ تدوین کے بعد تو الفاظ جو بھی تھے، محفوظ ہو گئے، اب تو وعظ و تقریر میں ہو سکتا ہے روایت بالمعنی کی ضرورت کبھی ہو۔ درس و تدریس اور تدوین اور روایت میں اس کی ضرورت ہی نہیں، تاہم متاخرین فقہاء حنفیہ نے جو اعتزال سے متاثر تھے، انہوں نے اسے بڑا غلط برتا۔ یونانی نظریات کا نام فقہ رکھا گیا، متکلمین کی موشگافیوں کو فقہ سمجھا گیا، اعتزال کی گمراہیوں کو ہدایت سے تعبیر کیا گیا۔ مامون کے دور سے متوکل کے زمانہ تک ائمہ سنت پر جو ابتلا آیا، وہ اسی قسم کی فقہ کا نتیجہ تھا۔ یہ فقہ ائمہ اربعہ سے پہلے شروع ہو چکی تھی۔ احناف میں اسے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ بشر مریسی 328ھ قاضی عیسیٰ بن ابان 221ھ، قاضی بشر بن ولید کندی اسی قسم کی فقہ کے پیداوار ہیں۔ بشر مریسی وہی بزرگ ہیں، جنہوں نے مامون کے دربار میں شیخ عبدالعزیز کنانی سے خلق قرآن پر مناظرہ کیا۔ امام احمد رحمہ اللہ نے ’’كتاب السنة‘‘ میں ان کے متعلق عجیب انکشافات فرمائے ہیں:
|