سکتے ہیں۔ ہائی کورٹ کے جج قانون کا فیصلہ تو کر سکتے ہیں، لیکن طب اور انجینئرنگ میں ان کے فیصلہ کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی۔
ائمہ حدیث کی رجال پر نظر:
(1) هشيم بن بشير واسطي: زہری کے شاگرد ہیں، اور استاد شاگرد دونوں ثقہ ہیں، اور دونوں بخاری کے رجال میں سے ہیں، لیکن ہشیم کی روایت زہری سے صحیح نہیں۔ [1] اس لیے صحیح بخاری میں ’’هشيم عن الزهري‘‘ کی کوئی روایت نہیں۔ محدثین کی دقت نظر کا یہ حال ہے کہ وہ ہر شاگرد کی مرویات پر ہر استاد کے لحاظ سے گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ضبط میں کہاں خلل واقع ہوا اور فلاں شاگرد نے استاد سے اخذ کرنے میں کہاں کوتاہی کی۔
(2) ورقاء بن عمر يشكري: ثقہ ہیں، لیکن منصور بن المعتمر کی روایات میں وہ پورے ضابط نہیں ہیں۔ یہ دونوں رجال بھی بخاری کے ہیں، لیکن ورقاء کی روایت منصور سے آپ کو صحیح بخاری میں نہیں ملے گی، کیونکہ ورقاء منصور کی روایت میں ثقہ نہیں۔ [2] آپ کو نئے تحقیقی ہتھیاروں سے فن پر حملہ کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن آپ کے اکتشافات واقعات میں کیا نیا رنگ بھریں گے؟ راوی راوی رہے گا اور مروی عنہ مروی عنہ ہو گا۔ آپ اس میں کیا جدت فرمائیں گے؟
(3) وضاح بن عبداللّٰه : بالاتفاق ائمہ قابلِ اعتماد ہیں اور ثقہ، لیکن قتادہ کی روایت میں وہ ثقہ نہیں۔ [3] اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ صحیح میں ’’وضاح عن قتاده‘‘ کا تذکرہ اپنی شرط کے خلاف سمجھتے ہیں، باوجودیکہ دونوں ثقہ ہیں۔
ایسے واقعات میں آپ کے جدید طریقے کون سے باب کا اضافہ کریں گے اور کون سا تارا توڑ کر لائیں گے؟ ماضی کے واقعات کی نوعیت آپ کی جدید بحث سے نہیں بدلے گی۔
(4) وليد بن مسلم دمشقي: بالاتفاق ثقہ ہیں، لیکن امام مالک رحمہ اللہ سے ان کی روایات صحیح نہیں۔ [4] اس لیے اصول ستہ میں ولید کی امام مالک رحمہ اللہ سے کوئی روایت نہیں، البتہ امام
|