اپنی جماعت کو بچانے اور لغزشوں کو چھپانے کے لیے یہ تعریضی بیانات دینے کے لیے آپ مجبور تھے۔ ’’عقلِ عام‘‘ کے تقاضے جب عقلِ عوام سے ٹکرانے لگیں تو مشکلات سے مخلصی کے لیے تعریضات کی راہ کھلی رہنی چاہیے اور اگر اسے خیالی تصوف اور تصوری زہد و ورع سے روکا گیا تو زندگی میں ایک ایسا خلا نمودار ہو گا جسے پاٹنا ناممکن ہو گا۔
ہجرت کے سفر میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ تعریض فرما کر ’’هَذَا الرَّجُلُ يَهْدِينِي السَّبِيلَ ‘‘[1]دانش مندی کی انتہا کر دی اور زبان اور ادب میں ایک مفید اضافہ فرمایا۔ آپ حضرات بھی عجیب ہیں، ایک طرف تو چاہتے ہیں کہ لوگ کھلے ذہن سے سوچیں، لیکن جب سوچنے کا وقت آ جاتا ہے تو آپ پر مصنوعی تصوف کا حملہ ہو جاتا ہے اور آپ عقل کی گود میں پناہ لیتے ہیں اور دوسروں پر طعن فرمانا شروع کر دیتے ہیں ۔۔!
ح۔ میرا ذاتی تجربہ معاریضِ ابراہیمی علیہ السلام کے متعلق یہ ہے کہ جب تک بچپن غالب تھا اور عقل ناتمام تھی، کذب کا نام سن کر تشویش ہوتی تھی۔ اساتذہ اور رفقاء سے بحث ہوتی رہی، لیکن جب سے تجربہ کی زندگی میں قدم رکھا، عمل نے تمام شبہات دور کر دیے۔ تعریض اور توریہ کو عملی دنیا کے ماحول پر محیط پایا۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء نے بوقت ضرورت اسے استعمال فرمایا، صلحاء کو اس کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پس ہماری ’’عقلِ عام‘‘ کو تو اس حدیث سے کوئی کھٹکا محسوس نہیں ہوتا، بلکہ دین کی تکمیل پر مزید یقین ہوتا ہے کہ اس میں زاویہ کے لیے بھی رہنمائی کا سامان موجود ہے۔
حضرت موسیٰ کا تھپڑ:
اس عنوان پر کچھ عرض کرنے سے قبل مولانا اور ان جیسے ’’محققین‘‘ کی خدمت میں گزارش ہے کہ یہ مسئلہ بھی کچھ آج نہیں چھڑا۔ تیسری صدی ہجری میں ’’درایت‘‘ کے ہیرو حضرات معتزلہ اس حدیث کو بھی مشکوک بنانے کی کوشش میں مصروف تھے اور حدیثِ پاک کے محافظ اللہ تعالیٰ نے محدثین کو توفیق دی کہ وہ اس حدیث کا صحیح مطلب بتا کر ان لوگوں کے دانت کھٹے کر دیں۔ چنانچہ اس زمانے کے چند محدثین نے اس حدیث کا جواب دیا، اُن میں مشہور محدث حافظ ابو حاتم محمد بن
|